قیام پاکستان سے لے کر آج تک پاک فوج کے اس سفر کی داستان جہاں پڑھنے والوں کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے وہیں اس سے ہمیں افواج پاکستان کے ان جانبازوں کے متعلق بہت کچھ جاننے کا بھی موقع ملتا ہے جنہوں نے ہر کڑے وقت میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ افواج پاکستان کے کارنامے دنیا کی جنگی تاریخ میں اپنی نظیر نہیں رکھتے کہ جس میں کسی فوج نے خود سے عددی، تکنیکی اور وسائل کے اعتبار سے کہیں بڑی فوج کا سامنا اس انداز سے کیا ہو کہ دنیا اس کو داد دینے پر مجبور ہو جائے۔ ایک لمحے کیلئے تصور کیجئے کہ 1948ء 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں کے دوران پاکستانی مسلح افواج نے ایک ایسے ملک کا دفاع کیونکر کیا ہوگا کہ جس کے دو حصوں کے درمیان ایک ہزار میل کا فاصلہ حائل تھا اور درمیانی حصے پر اس ملک کے ازلی دشمن کی حکومت قائم تھی۔
1971ء کی جنگ کا اختتام پاکستان کی دو حصوں میں تقسیم کی صورت ہوا اور ہمیںاپنی فوج کے ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہونا پڑا ۔ میں اس جنگ اور اس سرنڈر کا عینی شاہد ہوں جس مِیں میں نے جی جان سے حصہ لیا اور اپنے دائیں بائیں دشمن سے نبرد آزما ہونے والے اپنے بہادر ساتھیوں کو جامِ شہادت نوش کرتے ہوئے دیکھا تھا۔افواجِ پاکستان نے1971ء کی جنگ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے مقابلے میں بہتر انداز میں لڑی تھی لیکن اس مرتبہ حالات سازگار نہ تھے کیونکہ ہمارے جانبازوں کے قدموں تلے سے زمین کھینچ لی گئی تھی۔
دسمبر 1970ء میں ہونے والے عام انتخابات کے انعقاد کو افواج پاکستان کی ایک نمایاں کامیابی قرار دیا جاتا ہے۔ جنرل یحییٰ نے شفاف انتخابات کا نہ صرف وعدہ کیا بلکہ اس کو عملی جامہ بھی پہنایا تھا لیکن ان انتخابات کے محض تین ماہ بعد پاک فوج مشرقی پاکستان میں شروع ہونے والی خانہ جنگی میں اُلجھ چکی تھی۔ پورے نو ماہ تک ملک کی سیاسی قیادت اقتدار کی رسہ کشی میں اُلجھی رہی اور اس دوران خانہ جنگی کی آگ کو عوامی مصائب میں خوفناک اضافے،ملک کے دونوں بازوؤں کے درمیان بڑھتی ہوئی تلخیوں اورتشدد کو ایندھن ملتا گیا۔ ان نو ماہ کے دوران چند ہی ایسے لوگ تھے کہ جنہوں نے مشرقی پاکستان میں جاری خانہ جنگی کو بھارت کے ساتھ جنگ میں ڈھلنے سے روکنے کیلئے مخلصانہ کوششیں کیں اور زیادہ تر لوگوں نے پاک فوج کو ایک خوفناک ڈھلوان کی جانب دھکیلنے کا عمل جاری رکھا۔
پاکستان دنیا کی تاریخ میں ایک دلیرانہ تجربے کا نام ہے۔ ہمارے سامنے یہ چیلنج تھا کہ جغرافیہ، زبان اور نسل کے حساب سے دو مختلف قومیں نظریے کی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور سکون سے زندہ رہ سکتی ہیں لیکن ہم اس چیلنج پر پورا اترنے میں ناکام رہے۔جنگ بندی کا اعلان اچانک سامنے آنے کی وجہ سے پاک فوج کا بہترین حصہ،جو دو سٹرائیک کورز پر مشتمل تھا اور جس نے جارحانہ انداز میں دشمن پر جوابی حملہ کرنا تھا، اپنی بھرپور صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہا۔ پاک فضائیہ، جس نے بری فوج کی دشمن کے خلاف کارروائیوں میں مدد فراہم کرنا تھی، میدانِ عمل میں نہ اُتر سکی۔ ہمارے ہاں یہ تصور عام تھا کہ ’’مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان میں کیا جائے گا‘‘ لیکن یہ تصور حقیقت نہیں بن سکا۔
ان سٹرائیک کورز کے ایک بڑے حصے نے فوجی حکومت کے خلاف بغاوت کر دی کیونکہ ان کے خیال میں فوجی قیادت نے اپنی ذمہ داریاں پیشہ وارانہ انداز میں پوری نہیں کی تھیں، صدر سے اقتدار سے علیحدگی کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ تاریخ میں یہ کام پہلی مرتبہ ہوا کہ فوج کے دو کمانڈرز، ایئرمارشل رحیم خان اور لیفٹیننٹ جنرل گل حسن خان، نے صدر سے مطالبہ کیا کہ وہ اقتدار سیاسی رہنماؤں کو منتقل کر دیں حالانکہ اس وقت یہ دونوں کمانڈربذاتِ خود اقتدار سنبھال سکتے تھے،مگر دونوں نے صدر یحییٰ خان کوجواب دیا کہ وہ اقتدار سنبھالنے کے خواہشمند نہیں ۔پھر بھی 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران جہاں تک بہادری اور صلاحیتوں کے مظاہرے کا سوال ہے تو تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔
مغربی پاکستان میں جنگ
پاکستانی فوج کی تین ڈویژنز کو مغربی پاکستان سے روانہ کیا گیا تھا تاکہ وہ ہزاروں میل طویل سرحد، شہروں، قصبات اور حساس مقامات کا دفاع کریں لیکن ان کی تیاری کا یہ عالم تھا کہ ان کے پاس آپریشنز کی منصوبہ بندی ہی نہیں تھی۔ سپاہیوں نے ٹینس شوز پہن رکھے تھے اوران کے پاس صرف ہلکے ہتھیار تھے۔ پاک فوج کے ان تین ڈویژنز کو شمال، مشرق اور مغرب کی جانب سے بھارتی فوج کی گیارہ انفنٹری ڈویژنز، جس میں ماؤنٹین ڈویژنز، آرمرڈ ڈویژنز اور چند بریگیڈ ریزرو دستے بھی شامل تھے، نے محاصرے میں لے رکھا تھا۔ اس بڑے عدم توازن کی کوئی اور مثال نہیں ملتی۔ اس پر مستزاد مکتی باہنی کے لوگ تھے جنہوں نے پوری بنگالی آبادی کو قابو کر رکھا تھا اور یہ لوگ جارح اور ظالم بھارتی فوج کے آلہ کار بنے ہوئے تھے۔
مشرقی پاکستان جو جغرافیائی لحاظ سے تین اطراف سے بھارت کے حصار میں تھا اور چوتھی جانب سمندر واقع تھا اس وجہ سے اس کا دفاع کرنا بہت مشکل تھا۔ مشرقی پاکستان میں شروع ہونے والی خانہ جنگی نے پاک فوج کے عددی تناسب کو نہایت بُری طرح خراب کر دیا تھا۔ دشمن کا سامنا کرنے والے پاکستانی مسلح دستوں کو کسی جانب سے کمک یا مدد کی توقع نہیں تھی۔ ہمارے فوجی دستے ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہوئے اسلئے منتشر ہو جاتے تھے کہ جہاں سے وہ دوستی کی توقع رکھتے تھے وہیں سے ان پر وار کیا جاتا تھا۔ ایسی ہی ایک مثال میں ایک جی او سی اور بریگیڈ کمانڈر راستے سے بھٹک گئے اور کئی دنوں کے بعدمعجزانہ طور پر اپنے ساتھیوں سے واپس آن ملے۔ نومبر 1971ء تک پاک فوج کے دستوں کونو ماہ بیت گئے مگر ان مسلح دستوں کیلئے بارودی سرنگوں اور گھات لگا کر کیے جانے والے حملوں سے محفوظ رکھنے کا کوئی انتظام موجود نہ تھا۔
دلیرانہ کارنامے
مشرقی پاکستان کے محاذ پر پاک فوج کے افسروں اور جوانوں نے متعدد مواقع پر جرأت و دلیری کی روشن مثال قائم کیں۔ اس مختصر تحریر میں ان سب کا احاطہ کرنا ممکن نہیں تاہم چند ایک کا اختصار کے ساتھ ذکر کیا جا رہا ہے۔
1: جیسور، جیہندا، کشتیہ کے اردگرد جنگ
2: ہلی، بوگرا کے نواح میں معرکہ
3: دریائے گنگا کے شمال اور دریائے جمنا کے مغرب میں نتور کے مقام پر ہونے والی جنگ جہاں بھارت کے ساتھ سرحد کی لمبائی چار سو میل طویل تھی۔
مغربی پاکستان میں جنگ:۔
21 نومبر 1971ء کو بھارتی فوج نے پاکستانی مسلح دستوں کی جانب سے اپنی سرحدوں کی مسلسل خلاف ورزی کا بہانہ بنا کر مشرقی پاکستان پر حملہ کر دیا لیکن باقاعدہ اعلانِ جنگ نہیں کیا گیا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بھارتی فوج ایک مختصر وقت میں مشرقی پاکستان پر چڑھ دوڑنے کی مکمل صلاحیت رکھتی تھی۔ دوسری جانب 9 ماہ پر محیط خانہ جنگی کے دوران ہم مشرقی پاکستان میں ہونے والے فوجی آپریشن پر دنیا کو اپنا حامی بنانے میں ناکام رہے۔
بھارت نے یہ انتظام پہلے ہی کر رکھا تھا کہ جب پاکستان کے ساتھ جنگ کی نوبت آئے تو کوئی تیسرا ملک وہاں مداخلت نہ کر سکے۔ پاکستان کیلئے چین یا امریکہ سے مدد آنے کا واویلا بہت کیا جاتا ہے لیکن یہ مدد ہمیں کبھی فراہم نہیں کی گئی۔ ہماری اعلیٰ قیادت کو شاید یہ گمان تھا کہ مغربی پاکستان سے بھارت پر کیا جانے والا کوئی زبردست حملہ اسے مشرقی پاکستان میں ہوش کے ناخن لینے پر مجبور کردے گا یا شاید ہماری قیادت اس غلط فہمی کا شکار ہو گئی کہ دنیا مشرقی پاکستان پر بھارتی حملے کو قبول نہیں کرے گیاور حملہ بھارت کے گلے کی ہڈی بن جائے گا۔ 3 دسمبر کو پاک فوج نے چھمب سیالکوٹ اور حسینی والا سیکٹرز سے بھارت پر پیشگی حملے کا آغاز کیا اور بھاری نقصان کے باوجود یہ حملہ قابل ذکر حد تک کامیاب رہا۔ بھارت نے بھی مختلف سیکٹرز سے پاکستان پر حملے کیے اور کسی جگہ کم تو کسی جگہ زیادہ پاکستانی علاقے پر قبضہ جمانے میں کامیاب ہو گیا۔ بیرونی ممالک کے ساتھ بات چیت کرنے میں بہت سا قیمتی وقت ضائع کر دیا گیا اور جب پولینڈ کی جانب سے جنگ بندی کی قرارداد پیش کی گئی تو ہم نے یہ سنہری موقع ضائع کر دیا کہ جس کے ذریعے ہتھیار پھینکنے کی شرمندگی اور ذلت سے بچا جا سکتا تھا۔ بلاشبہ یہ ہماری تاریخ کا افسوسناک ترین دن تھا۔
٭…٭…٭