ہمارے ملک میںکتنی حکومتیں آئیں اور گئیں لیکن عوامی نوعیت کے بنیادی مسائل جوں کے توں ہی رہے۔ شاید ہی کوئی سیاسی پارٹی ہو گی جِس کے منشور میں ملک سے بے روزگاری ختم کرنے کا ذکر نہ ہو۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ ہر حکومت نے ملک کی ترقی اور روزگار فراہم کرنے کے منصوبے اور اسکیمیں سوچیں لیکن ایک طرح یا دوسری طرح اِن کا نفاذ نہ ہو سکا۔ اسی لئے بے روزگاری کا مسئلہ جوں کا توں موجود ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسا کیا کیا جائے کہ ملک سے بے روزگاری جڑ سے ختم ہو جائے!! یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جِس سے ان گنت مسائل جڑے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ کیا کوئی ایسا ملک بھی ہے جہاں ہمارے جیسے بے روزگاری کے مسئلہ پر قابو پایا گیا ہو؟ اس فہرست میں جرمنی وہ ملک ہے جہاں پر ہمیں جنگِ عظیم اوّل کے بعدمایوسی، بد دلی، ملکی کرنسی کی بے وقعتی، اور بے روزگاری نظر آئی۔ ایسے برے حالات میں ہٹلر ، نیشنل سوشلسٹ سماجی کایا پلٹ پروگرام لے کر منظر ِ عام پر ابھرا۔ اُس نے قوم سے تین سال مانگے اور اِس مدت میں وہ کام کر دکھایا جو صرف معاشیات کی کتابوں میں ہی مِلتا ہے یعنی فُل امپلائمنٹ کہ آ پ کو مزدور کی ضرورت ہو اور ایک مزدور بھی خالی یا فارغ نہیں مِلے۔ سب پہلے ہی سے کام پر ہوں۔جرمنی نے صرف تین سال میں بے روزگاری پر کیسے قابو پا یا ؟ کیا پاکستان میں ایسا نہیں ہو سکتا؟ 30 جنوری 1933 وہ یادگار دِن ہے جب ایڈولف ہٹلر جرمنی کا چانسلر بنا۔ ہٹلر نے جرمنی کے چانسلر بننے کے دو دِن بعد ریڈیو پر قوم سے خطاب کیا۔اُس نے کہا کہ چار سالہ ترقیاتی منصوبے کی مدد سے ملکی معیشت کی تنظیمِ نو کی جائے گی۔ کسان ملک کی بنیاد ہیں لہٰذا اِن کے کام میں کوئی رکاوٹ نہیں آ ئے گی اور نہ ہی عدم تحفظ کا احساس۔ جرمن مزدور کو بھی سر اُٹھا کر جینے کے مواقع فراہم کیے جائیں گے اور مستقل روزگار کی ضمانت دی جائے گی۔اُس نے یقین دِلایا کہ صرف چار سال میں بے روزگاری کو ضرور ملک سے ختم کیا جائے گا اِس عرصہ کے بعد آپ ہم کو پرکھ سکتے ہیں۔اپنی ہی پارٹی کے بعض ناقابلِ عمل یا کمزور معاشی نکات ہٹلر نے مُسترد کر دیے۔ اہل اور قابل لوگوں کی جانب متوجہ ہوا جو اپنے اپنے میدانوں میں لوہا منوا چکے تھے۔ قابلیت کی کسوٹی پررکھتے ہوئے چانسلر نے Hjalmar Schacht نام کے ایک نامور بینکر اور فنانسر کو جرمنی کے مرکزی بینک کا صدر مقرر کر دیا۔ جرمنی کی نئی حکومت نے پہلا کام بے روزگاری کو پوری طاقت سے ختم کرنے کی کوشش کا کیا۔نجی صنعتوں کی حوصلہ افزائی کے لئے سبسیڈی اور ٹیکس ریبیٹ کا سلسلہ شروع کیا ۔ایڈالف ہٹلر نے حکومت سنبھالتے ہی عوامی کاموں کے اخراجات کے لئے بڑے پیمانے پر قرضے حاصل کئے ۔یہ ریل کی پٹریاں، آب پاشی کی نہریں، پورے ملک میں سڑکوں کا جال اور بڑی شاہراہیں بنانے میں استعمال ہوئے۔ یہی ہٹلر کی معاشی پالیسی رہی۔ دنیا نے اِس کا نتیجہ بھی جلدد یکھ لیا۔ 30 کی دہائی کے اواخر میں جرمنی میں روزگار کی شرح صد فی صد تھی اور ملک گیر قیمتوں میں استحکام تھا۔اُس وقت کے تمام صنعتی ممالک میں یہ واحد مِثال ہے۔ جیسا کہ وعدہ کیا گیا تھا ہٹلر اور اُسکی نیشنل سوشلسٹ حکومت نے 4 سال کی مدت کے اندر ملک سے بے روزگاری ختم کر دی۔ 1933 کے شروع میں چھ ملین بے روزگار تھے جو 1936میں گھٹ کر ایک ملین رہ گئے ۔ بے روزگاری کی یہ شرح اِس قدر تیزی سے کم ہوئی کہ 1937-38 میںیہ صفر بلکہ منفی صفر رہ گئی۔1933 اور 1939 کے عرصہ میں بعض اشیائے صرف کی قیمتیں اوسطاََ 1.2 فی صد سالانہ بڑھیںجبکہ ٹیکس کاٹنے کے بعد نیٹ ہفتہ وار اوسطاََ معاوضہ 22 فی صدبڑھا۔حتیٰ کہ جنگ کے دوران بھی ، ستمبر 1939میں یہ معاوضے بڑھتے ہی رہے۔1943 میں جرمن مزدور کا اوسط فی گھنٹہ معاوضہ 25فی صدبڑھ چکا تھا اور اُس کی ہفتہ وار تنخواہ 41 فی صد۔ مزدور کو زیادہ اُجرت ملنے کے علاوہ، کام کرنے کا بہتر ماحول، صحت کی جملہ سہولیات، بہتر حفاظتی ماحول، کام کے دوران رعایتی قیمت پرکھانامِلتا تھا۔ نیشنل ہیلتھ کیئر پروگرام، مزدور کو روزگار کی گارنٹی اور بعد از ریٹایئرمنٹ تا حیات پنشن بھی ملتی تھی۔ ہٹلر کی خواہش تھی کہ جرمن عوام کا معیارِ زندگی ممکن حد تک بلند ترین ہو۔اُس نے 1934میں کسی امریکی صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا ’’ میرے خیال میں ہر فرد کو ترقی کے زینے چڑھنے کے یکساں مواقع دینے بہت ضروری ہیں ‘‘۔جرمنی پہلی جنگِ عظیم سے پہلے یورپ کاترقی یافتہ ملک اور مستحکم اقتصادی طاقت تھا لیکن اِس جنگِ عظیم نے جرمنی کو عملاََ صفر کر دیا۔آپ یہ سوچیں کہ عرش سے فرش پر آنے والے غریب کی ذہنی حالت کیا ہو گی !! اس پس منظر میں ہٹلر کے نزدیک تمام ہی منصوبوں کا مرکزی خیال صرف اور صرف ’’ــ عام آدمی ‘‘ ہی رہا۔ یہ طبقاتی کشمکش کا موثر علاج ہے۔ جرمنی کی تجارت کی تجدید ہوئی اور وہ پھلی پھولی۔ نیشنل سوشلسٹ حکومت کے پہلے چار سال میں بڑی کارپوریشنوں کے نیٹ فوائد چار گُنا ہو گئے۔ 1939سے 1942تک اِن تین سال میں جرمنی کی صنعت اِس قدر پھیلی جِس قدر پچھلے پچاس سالوں میں پھیلی تھی ۔ صحت کے معاملے میں تو جرمنی نے دیگر ممالک کو بہت پیچھے چھوڑ دیا۔ سیبیسٹین ہیفنر ، ایک موثر جرمن صحافی اور مورخ ہیں جو ہٹلر اور اُس کے نظریات کے سخت ناقِد ہیں ، لکھتے ہیں: ’’ ہٹلر کی مثبت کامیابیوں میں جو سب سے ممتاز نظر آتی ہے وہ اُس کا معاشی معجزہ ہے ۔ جب تمام دنیا اقتصادی بحرانوں میں پھنسی ہوئی تھی ہٹلر نے جرمنی کو تین سالوں میں خوشحالی کا جزیرہ بنا ڈالا۔اسی وجہ سے کئی ایسے جرمن جو ہٹلر کے نظریات سے اتفاق نہیں کرتے تھے وہ بھی اِس کامیابی پر اُس کے گرویدہ ہو گئے ‘‘۔غیر ملکی بھی اِس شاندار ترقی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔امریکی کارپوریشنیں براہِ راست جرمنی کی معیشت میں سرمایہ کاری کرنے کے لئے آ گئیں …گو کہ ہٹلر بھی جمہوریت کے مروجہ اصولوں کے تحت ہی برسرِ اقتدار آیا لیکن ملک اور قوم کی ترقی کی پالیسیوں کے مکمل نفاذ کے لئے اُس نے بھان متی کا کنبہ نہیں رکھا ۔ اُسے اپنی حکومت بنانے کے لئے کئی سیاسی پارٹیوں کو ساتھ لے
کر چلنے کی مجبوری نہیںتھی نہ ہی اپنی پالیسیوں کے نفاذ کے لئے مختلف الخیال قسم کے پریشر گروپوں کی بے جا مداخلت اور اپنی ہی سیاسی پارٹی کے اندر سے مصلحتوں کے کوئی ٹکرائو تھے۔اور سب سے بڑی بات کہ ان کی طرزِ حکومت میں ’’ افسر شاہی / بیوروکریسی ‘‘ نہیں تھی۔اُس نے پالیسی کے نفاذ کے لئے صرف تین سے چار سال مانگے۔ تمام تر فیصلے مشاورت کے بعد صرف ایک شخص نے کئے۔پھر نتیجہ دنیا نے دیکھ لیا۔خود پاکستان میں اگر کوئی صنعتی ترقی ہوئی تو وہ ایوبی دور میں ہوئی کیوں کہ اُس وقت بھی فیصلہ ’’ ایک شخص ‘‘ کرتا تھا۔ بیشک دنیا اُسے آمر کہتی رہے۔
اُس وقت ملکی مفاد کے لئے جو پالیسیاں بنائی گئیں وہ کم و بیش اپنی اصل میں ہی نافذ ہوئیں۔لیکن جب بھی جمہوری حکومتیں آئیں … مصلحتوں اور پریشر گروپوں نے ایک بھی قومی پالیسی نہیں چلنے دی۔ اللہ تعالیٰ نے ابھی تک ہم پاکستانیوں کو مہلت دے رکھی ہے ۔آخر ہم اچھے قومی منصوبوں کے نفاذ میں بد دیانتی کیوں کرتے ہیں؟۔ یہاں قطعاََ قابِل افراد کی کمی نہیںصرف اُن سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ منصوبے اور پراجیکٹ اگر صحیح طریقے سے نافذ ہی نہ ہو سکیں تو پھر اِن کے بنانے کا بھلا کیا فائدہ؟ ہم 1919 کے جرمنی جیسے گئے گزرے تو نہیں پھر آخر ایسی کیا بات ہے کہ نا اُمیدی اور بے روزگاری کے عذاب ہی سے جان نہیں چھوٹ پا رہی۔ کیا ہمیں کسی ہٹلر کا تو انتظار نہیں؟