او آئی سی کے وزراء خارجہ کا ایک غیر معمولی اجلاس رواں ماہ کی انیس تاریخ کو اسلام آباد میں منعقد ہورہا ہے جس میں او آئی سی سے تعلق رکھنے والے تمام وزراء خارجہ کے علاوہ کچھ دیگر بین القوامی اورعلاقائی تنظیموں کو بھی مدعو کیا جارہا ہے ۔اس غیر معمولی اجلا س کے بلانے کا مقصد افغانستا ن کی سنگین انسانی صورتحال پر مشترکہ طور پر غور و خوص کے نتیجے میں موثر لائحہ عمل طے کرنا ہے ۔اقوام متحدہ کے تخمینے کے مطابق اس وقت افغانستان کے 38ملین افراد میں سے پچاس فیصد کو’’ بھوک کے سنگین بحران‘‘کا سامنا ہے اور اس صورتحال میں ہر نئے دن کے گذرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ورلڈ فوڈ پروگرام نے بھی اس حوالے سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں 3.2 ملین بچے شدیدغذائی قلت کے خطرے سے دوچار ہیں جبکہ دوسری طرف یو این او ایچ سی اے (UNOHCA)کے مطابق جنوری اور ستمبر 2021کے درمیان 665.000نئے افراد افغانستان کے اندر گھرے ہوئے ہیں جبکہ افغانستان میں اندرونی طور پر بے گھر ہونے والے 2.0ملین افراد ان کے علاوہ ہیں ۔افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے خصوصی کردار پر نظر ڈوڑائی جائے تو یہ امر کھل کر عیاں ہوتاہے کہ پاکستان وہ واحد ملک ہے جس نے شروع دن یعنی افغانستان پر غیر ملکی یلغار سے لے کر آج اِس کے بحالی تک ہر موڑ ہر قدم پر اِس کا بھر پورساتھ دیاہے جو اس کی ہمسایہ ممالک سے دوستانہ تعلقات و روابط کو مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے ہی نہیں بلکہ قائم رکھنے کی ک و ششوں کا مظہر ہے ۔گوکہ نومبرمیںسعودی عرب نے افغانستان کے مسائل کے حوالے سے او آئی سی کا پہلااجلاس بلا کر ایک اہم قدم اُٹھایا تھاجس کا پاکستان نے نہ صرف بھر پور خیرمقدم کیا بلکہ اگلے اجلاس کی میزبانی کی پیشکش بھی کر دی جس پر او آئی سی وزراء خارجہ کا یہ غیر معمولی اجلاس انیس دسمبر کو اسلام آباد میں ہونے جارہا ہے ۔ پاکستان اپنے محدود وسائل اور مالی مسائل کے باوجود امت مسلمہ کے ملک ہونے کے ناطے گذشتہ چالیس برسوں سے چالیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کا بوجھ اپنے گندھوں پر اٹھائے ہوئے ہے بلا کسی قسم کے شکوے شکایت کے ،جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کے عوام افغانستان کے لوگوں کے ساتھ دوستی اور بھائی چارے کے ساتھ ساتھ دونوں اطراف سے آپس کی رشتہ داریوں کے بندھن میں بھی بندھے ہوئے ہیں ۔اوآئی سی کے بانی ارکان میں افغانستا ن کے شامل ہونے کے ناطے بھی او آئی سی نے بھی ہمیشہ افغان عوام کی حمایت کی ہے تاہم افغانستا ن آج جن مسائل سے گذر رہا ہے ان کے پیش نظر او آئی سی کے علاوہ پوری عالمی برادری کی مد د و حمایت کی ضرورت ہے پاکستان بھی اس ضمن میں اپنی سفارتی کوشیشیں جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ وزیر اعظم عمران خان کے عالمی راہنماؤں کیساتھ افغانستان کی صورتحال پر رابطے میں ہیں جبکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بذات خود علاقائی سطح پر مشترکہ لائحہ عمل کی تیاری و ترویج کیلئے افغانستان کے قریبی پڑوسی ممالک جن میں ایران ،تاجکستان ،کرغستان اور ترکمانستان شامل ہیں کا دورہ کر چکے ہیں اور پاکستان کی انہیں کاوشوں کے نتیجے میں افغانستان کے چھ پڑوسی ممالک کا ایک باقاعدہ پلیٹ فارم بھی تشکیل پا چکا ہے جبکہ ماسکو فارمیٹ اجلاس میں شرکت اور ٹرئیکا پلس اجلاس کی میزبانی بھی انہی کاوشوں کا تسلسل ہے ۔متذکرہ پس منظر میں دیکھا جائے تو 19دسمبر کو اسلام آباد میں منعقد ہونیوالا او آئی سی وزراء خارجہ کا یہ غیر معمولی اجلاس افغان عوام کی انسانی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات پر غور و خو ص کا موزوں موقع فراہم کرے گا جس میں افغانستان میں انسانی بحران کے خاتمے کی زریعے معاشی استحکام کو یقینی بنانے میں مدد مل سکتی ہے بلکہ او آئی سی کی قیادت دیگر بین القوامی اداروں، تنظیموں کو آگے آنے اور افغان عوام کی مدد کیلئے ہاتھ بڑھانے کی ترغیب دینے میں بھی موثر ثابت ہو سکتی ہے ۔
افغان عوام کی پریشانیوں کو دور کرنے اور اِن کے مسائل حل کرنے کی پاکستان کی فکرو جذبات پر غور کیا جائے تو ہمیں یہ سب دیکھ کر خیال آتا ہے کہ افغانوں کی پریشانیوںمسائل کی جتنی فکرپاکستان کو ہے اتنی فکر خود افغان حکرانوں کو نہیں ہے۔ ثبوت کے طور پر ہم افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی کے مشکل وقت میں یوں ا فغانوں کو تنہا چھوڑ کر بیرون ملک فرار کا واقع پیش کر سکتے ہیں جبکہ اُن سے پہلے بھی افغانستان کے جتنے بھی حامد کرزئی وغیرہ وغیرہ حکمران افغانستا ن او ر افغانوں پر حکومت کر چکے یا افغانوں پر اپنا حکم چلا چکے وہ بھی خدا واسطے کی بات کی جائے تو اپنے ملک سے نہ ہی افغان عوام سے مخلص رہے ،سوائے افغان طالبان کے ۔اور اب یہ افغانستا ن اور اُس کے عوام کی خوش قسمتی کہ مفاد پرست حکمرانوں سے اُن کی جان چھوٹی اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے اُن کی قیادت ایسے ہاتھوں میں تھما دی جو جان تو دے سکتے ہیں مگر وطن پرآنچ نہیں آنے دے دیں گے ،مگر مقام فکر ہے کہ ایسی مخلص قیادت کے ہا تھوں میں ملک کی با گ دوڑ ایسے وقت و حالا ت میں آئی ہے جب اشرف غنی سمیت ہر حکمران اس کاتیہ پانچہ کر چکے تھے لہذا ایسے حالات میں کہ جب افغانوں کو دو وقت کی روٹی مسئلہ بن چکی ہے ،او آئی سی خصوصاً پاکستان کی میزبانی میں ہونیوالا متذکرہ اجلاس افغانستان اورافغان عوام کیلئے گھپ اندھیرے میںروشنی کی ایسی کرن دکھائی دے رہی ہے جس کی ہلکی سی ہی چمک سے پورے کے پورے افغانستان کی روشن صبح کا سورج بھر پور آب و تاب سے طلوع ہو سکتا ہے۔اب یہاں یہ او آئی سی اور عالمی برادری کی بالعموم جبکہ روس و امریکہ کی بالخصوص سیاسی و اخلاقی دونوں لحاظ سے زمہ داری بنتی ہے کہ چونکہ افغانستان اور افغانوں کی تباہی کے زمہ دار روس وامریکہ دونوں ہیں لہذا انہیں سب سے زیادہ آگے بڑ ھ کر اسلام آبا د اجلاس کو با مقصد بنانا چاہیے جن کے ہی تعاون سے افغانستان میں انسانی بحران کے خاتمے کے زریعے معاشی استحکام کو یقینی بنانے میں مدد مل سکے تودوسرا اِن دونوں کی طرف سے افغانوں کو دیئے گئے زخم جلد سے جلد مندمل ہوسکیں اور چار دھائیوں سے انسانی حقوق کے تحت زندگی کو ترسے افغان سکھ و خوشحالی کا سانس لے سکیں۔
او آئی سی وزراء خارجہ کا غیر معمولی اجلاس
Dec 17, 2021