متنازعہ فلم ’جوائے لینڈ‘ اور آسکرایوارڈ

1947ء سے1958ء پاکستانی سینما انڈسٹری نے اپنی بنیادیں قائم کرنا شروع کیں۔ یہ سب جانتے ہیں کہ فلم اور سینما انڈسٹری لازم و ملزوم ہیں اور جتنی ایک فلم اپنے سکرپٹ اور پیش کاری میں تگڑی ہو گی اتنا ہی سینما انڈسٹری کو فروغ ملے گا۔ پاکستان میں1959ء سے 1977ء تک فلم اور سینما انڈسٹری کا سنہرا دور تھا جب معیاری فلمیں فلم بینوں کو سینما گھروں کی طرف کھینچنے پر مجبور کر دیتی تھی لیکن ضیاء دور کے بعددونوں انڈسٹریوں کوبدرجہ اتم تنزلی کا سامنا کرنا پڑا اس کی ایک وجہ مشرقی پاکستان کی قیمتی انڈسٹری کا کھو دینا اور دوسری طرف آمریت کی بنا پر فلمی نمائش پر بہت سی پابندیوں کا اطلاق ہونا تھا۔لیکن فلم انڈسڑی کی زبوں حالی کا سبب ایک یا دو عوامل کو قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جن کی بناء پر پاکستانی فلم بین سینما سے بہت دور چلے گئے۔ اور ملک میں موجود 700 سینمائوں کی تعداد کم ہو کر 2005ء میں 170تک آ چکی تھیں لیکن 2007میں ’’خدا کے لیے‘‘ فلم نے جدت اور جاندار سکرپٹ کے ساتھ ہوا کے تازہ جھونکے کا کردار ادا کیا۔اور جب سے پاکستانی فلم انڈسٹری نے نئے خطوط پر چل کر کام کرنے کا فیٖصلہ کیا ہے تب سے فلمی مداح سینما کی طرف واپس لوٹنا شروع ہو گئے ہیں جو کہ ایک بڑی کامیابی اور نوید سے کم نہیں ہے۔ دنیا بھر میں امر یکن ہالی وڈ سینما انڈسٹری کے بعدبھارتی بالی وڈ انڈسٹری دوسرا بڑا نام ہے جبکہ لالی وڈ انڈسڑی بھی اپنا نام بنانے کی تگ و دو میں جتی ہوئی ہے۔وسائل اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے پاکستانی انڈسڑی کا ان دونوں انڈسٹریوں سے باہمی مقابلہ یا مسابقت کرنا ویسے تو بیوقوفی ہو گی لیکن چند سوالات ضرور پیدا ہوتے ہیں۔ بھارتی فلم انڈسڑی جو کہ پروڈکشن کے حوالے سے دنیا کی سب سے بڑی فلم انڈسڑی ہے اور بھارتی سالانہ شرح نمو میں 2022 ء کے مطابق اس کا قومی بجٹ میں182 بلین بھارتی روپے کا خطیرحصہ شامل ہے۔جبکہ اس کے مقابلہ میںپاکستانی فلم انڈسڑی میں فلم ساز اپنا لگا پیسہ ہی وصول کر لیں تو وہی کافی ہے لیکن ان محرومیوں کے باوجود پاکستانی فلموں کو اوپر نیچے آسکر ایوارڈ ملنا ایک معجزہ سے کم نہیں۔حالیہ دنوں پاکستان میںٹرانس جینڈر سے محبت پر مبنی فلم’’جوائے لینڈ‘‘ متنازعہ حیثیت اختیا ر کر چکی ہے۔بظاہر اس فلم کی کہانی کو ٹرانس جینڈر (خواجہ سرائوں) کے بنیادی مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے ایک فیچر فلم کا نام دیا گیا ہے۔جس کی کہانی کے مطابق لاہور شہر کے راسخ العقیدہ متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والے لڑکے کو ایک ڈانس تھیٹر میں ملازمت کے دوران خواجہ سرا ’’بیبا ‘‘سے محبت ہو جاتی ہے۔ ناقدین کے مطابق درحقیقت ’’جوائے لینڈ ‘‘کی کہانی ٹرانس جینڈر کے ممنوعہ تعلق کو جائز قرار دینے کے لیے ہمدردانہ رائے کو پروموٹ کرنے کی راہ ہموار کرنے کا ایک طریقہ کہنا بے جا نہ ہو گا۔ جوائے لینڈ فلم کوپاکستانی فلم سینسر بورڈ کی جانب سے نمائش کی اجازت دے دی گئی تھی۔ اور اسے گزشتہ ماہ نومبرمیں سینما گھروں میں دکھایا جانا تھا۔لیکن عین وقت اس پر بین لگا دیا گیا۔ حالانکہ پاکستان کی جانب سے آفیشل سطح پرانڑنیشنل آسکر ایوارڈ کی نامزدگی کے لیے اسے جمع بھی کروا دیا گیا تھا۔لیکن اسکی کیا وجوہات ہیں کہ یہ فلم پاکستان میں دو طبقوں کے درمیان وجہ بحث و تکرار بنی ہوئی ہے۔ مذہبی،دینی اور اخلاقی حلقوں کے مطابق یہ فلم مغربی دنیا کے بدبودار کلچر کو امپورٹ کرنے کے لیے بنائی گئی ہے تاکہ پاکستانی فلم بین جن کی اکثریت نوجوان نسل پر مشتمل ہے ان کی ذہن سازی کی جا سکے جبکہ ملک میں موجود لبرلز حلقوں نے اس فلم کی بندش کو خواجہ سرائوں کے حقوق سلب کرنے کے مترادف قرار دیا ہے لیکن اگر عام پاکستانی اس فلم پر بیرونی دنیا کے ایوارڈوں کی بارش اور پذیرائی کو سمجھنا چاہتا ہے تو یہ بتاتا چلوں کہ جوائے لینڈ پہلی پاکستانی فلم ہے جس کا فرانس کے کانزفلم فیسٹیول میں پریم دکھایا گیااور اس کی نمائش کے بعد فلم نے ناظرین کو کھڑے ہو کر داد دینے پر مجبور کر دیا۔اس فلم نے جیوری پرائز  ایل جی بی ٹی کیوں کیوئر یا فیمینسٹ پرائز بھی جیتا۔دنیا بھر کے لوگوں کا کہنا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستانی پذیرائی یا تسلیم کرنے والے ہر ورلڈ فورمز کی جانب سے ملنے والے ایوارڈ یا ٹائٹلز کوہضم کیوں نہیں کر پاتے۔اور اسے اسلام مخالف کا نام کیوں دیتے ہیں۔ تو جناب سیدھی سی بات ہے مغرب اور امریکہ نے پاکستان سے متعلق ہمیشہ ہر اس چیز کی پذیرائی اور تعریف کی ہے جو دینِ اسلام یا مسلم ثقافت کے متصادم ہواس کی مثال 2016 میں کینیڈین پاکستانی صحافی خاتون شرمین عبید چنائی کی سیونگ فیس نامی بنائی جانے والی شارٹ فلم تھی جسے آسکر ایوارڈ دیا گیا۔اور اس ایوارڈ کو بھی پاکستان میں ویلکم نہیں کیا گیا۔کیونکہ اس فلم میں مجموعی طور پر پاکستانی مردوں کے ظالمانہ تشخص کو دکھایا گیا تھا۔اب اسی طرح جوائے لینڈ فلم ہم جنس پرستی کے مرکزی تھیم پر کام کرتے ہوئے پاکستانی سوشو کلچر میں نقب لگانے کی سازش کی گئی ہے۔ میں اپنے گزشتہ ایک کالم میں ٹرانس جینڈر ایکٹ پر بات کر چکا ہوں کہ پورے پاکستان میں اس وقت 11  ہزار کے قریب خواجہ سرا موجود ہیں جن کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے یہ ایکٹ اہمیت کا حامل ہے۔لیکن ٹرانس جینڈر کے ایسے مطالبات جو کہ ان کے حقوق تو نہیں کہلا سکتے۔ رہی بات اس ایوارڈ کی تو ایسے ایوارڈ کو ہم نے کیا کرنا جو ہماری نظریاتی بنیادوں کو کھوکھلا کر دے ۔

ای پیپر دی نیشن