ہفتہ،22  جمادی الاوّل 1444،17 دسمبر2022ء 


اختلافات پر مٹی پائو‘ صدر علوی میدان میں کود پڑے۔ 
دیر آید درست آید کے مصداق صدر مملکت نے درست مشورہ دیا ہے ۔ ’’مٹی پائو‘‘کی بات تو ہمارے بزرگ سینئر سیاست دان چودھری شجاعت بھی عرصہ دراز سے کر رہے ہیں لیکن شاید انکے اس فارمولے کی کسی کو سمجھ نہیں آرہی تھی۔ اگر اختلافات پر پہلے ہی مٹی ڈالنے کی کوشش کرلی جاتی تو ملک کا اتنا تماشا نہ بنتا اور نہ سیاسی انتشار عروج پاتا۔ اب چونکہ سمجھ آگئی ہے اور صدر بھی وفاق کی علامت بن کر اختلافات پر مٹی ڈالنے کا مشورہ دے رہے ہیں تو سیاست دانوں کو اس میں دیر نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ’’مٹی پائو‘‘ واحد آپشن ہے جو ملک میں سیاسی استحکام لا سکتا ہے اور اسے بحرانوں سے نکال سکتا ہے۔ لہٰذا سب سیاست دانوں کو اپنے اپنے حصے کی مٹی ڈال کر اختلافات ختم کر دینے چاہئیں اور اس وقت تک مٹی ڈالتے رہنا چاہیے جب تک اختلافات کا مردہ مکمل طور پر دفن نہ ہو جائے۔ اگر کوئی اختلاف مٹی سے محروم رہ گیا تو یہ اختلافات کا مردہ کفن پھاڑ کر پھر باہر آسکتا ہے۔
٭…٭…٭
خبر ہے کہ تحصیل کامونکے میں کرائے کی اسناد اور ڈرگ سیلز لائسنس پر فارمیسیاں اور میڈیکل سٹور کھولنے کا دھندا عروج پر پہنچ گیا۔ 
نہ جانے ہمارے ملک میں انسانی زندگیوں کو اتنا غیر اہم کیوں سمجھا جاتا ہے‘ جس شعبے میں دیکھیں‘ کچھ نہ کچھ غلط ہو رہا ہوتا ہے۔ جعلی ڈگریوں والے جہاز اڑاتے رہے جس سے سینکڑوں زندگیاں خطرے میں پڑ گئیں‘ ہسپتالوں میں جعلی ڈاکٹر  اور گلی محلوں میں عطائی بلا خوف انسانی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ 2013ء میں مختلف پارٹیوں کے 35 سیاست دان بھی جعلی ڈگری والے پائے گئے اور کئی قانون سازوں کی ڈگریاں بھی جعلی نکل آئیں۔ جعلی کرنسی بنانے والے بھی وطن عزیز کو اپنے لئے جنت تصور کرتے ہیں۔ اوراب رہی سہی کسر جعلی ڈگریوں پر انسانی زندگیوں سے کھیلنے کیلئے میڈیکل سٹور اور فارمیسیاں کھول کر پوری کی جا رہی ہے۔ افسوسناک امر تو یہ ہے کہ انتظامیہ خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے جس سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ ان عناصر کو اسکی طرف سے کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ 2018ء میں ایک جعلساز کمپنی کا سکینڈل بھی عوام کو یاد ہوگا جس نے دھڑا دھڑ جعلی ڈگریاں فروخت کرکے اربوں کمائے تھے اور جعلی ڈگریوں والے ملک بھر میں پھیلا دیئے۔  ان واقعات کے تناظر میں تو اب ہر کوئی مشکوک ہی نظر آتاہے۔ جب ملک چلانے والے‘ دوائیاں بیچنے اور بنانے والے‘ علاج معالجہ کرنے والے جعلی نکل آئیں تو عوام کی زندگیوں کی ضمانت کیسے دی جا سکتی ہے۔ شاید اسی وجہ سے ہمارے ہاں شرح اموات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جعلی ڈگری کا کاروبار کرنے والوں نے اصل اور نقل کا فرق ہی مٹا کر رکھ دیاہے۔ جس طرح دودھ‘  مکھن‘ گھی اور شہد کے خالص ہونے پر اعتبار نہیں رہا‘ اسی طرح اب لوگوں کے خالص ہونے پر بھی شک گزرتا ہے۔ دیکھتے ہیں‘ ہمارے ملک میں خالص لوگ اور خالص چیزیں کب اور کیسے  دستیاب ہوتی ہیں؟
٭…٭…٭
تحریک انصاف کے سابق رہنما فیصل واوڈا نے اپنے ٹویٹ پیغام میں عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا ہے کہ انہیں ’’مولاجٹ‘‘ سیاست سے کیا ملا؟ پنجاب اسمبلی گرانی ہے تو بار بار تاریخ کیوں؟ 
یہ سچ ہے کہ ہماری سیاست جس نہج پر پہنچ چکی ہے‘ اس میں ہر کوئی مولا جٹ اور نوری نت والا کردار ادا ہی کرتا نظر آرہا ہے۔ فلم مولا جٹ کا ایک ڈائیلاگ کافی مشہور ہوا کہ ’’مولے نوں مولا نہ مارے تے مولا نئیں مردا‘‘۔ ہمارے سیاسی ’’مولے‘‘ بھی اسی طرح کی بڑھکیں مار رہے ہیں اور انہیں اپنی ان بڑھکوں کے شور میں غربت اور مہنگائی سے مرتے عوام نظر نہیں آرہے جنہیں مولا (خدا)  نہیں‘ انکی طرف سے لائی گئی مہنگائی ما رہی ہے۔ نہ جانے ہماری سیاست میں تہذیب و شائستگی کیوں ختم ہو کر رہ گئی۔ سیاسی مفاد کی اس جنگ میں کسی کا پردہ رہا نہ کسی کی عزت محفوظ۔ الزام تراشیاں‘ مغلظات‘ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کیا جاتا۔ اس بدتہذیب سیاست میں چاہے اپوزیشن ہو یا حکومتی اکابرین‘ دونوں طرف سے سنگین ’’گولہ باری‘‘ میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جا رہی اور انکی لڑائی میں بھرکس عوام کا نکل رہا ہے اور ملک جانے انجانے میں دنیا  بھر میں تماشا بنتا جا رہا ہے۔  رہی بات پنجاب اسمبلی گرانے کی تو حالات کے تناظر میں تو یہ اپوزیشن کے حق میں بالکل جاتی نظر نہیں آرہی۔ باقی خان صاحب کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا‘ وہ سنتی سب کی ہیں‘ لیکن کرتے اپنی ہی ہیں۔ انکے ایسے کئی فیصلے ریکارڈ پر موجود ہیں جن پر انہیں جلد یا بدیر یوٹرن لینا پڑا۔ فیصل واوڈا درست فرما رہے ہیں کہ مولا جٹ کی سیاست سے عمران خان کیا حاصل کر پائے‘ اس لئے خان صاحب سمیت تمام سیاست دانوں کو پاکستانی فلم ’’تہذیب‘‘ دیکھ کر اب اسکے کرداروں کو کاپی کرنے کا سوچنا چاہیے تاکہ ہماری سیاست میں کچھ تو تہذیب کا راستہ ہموار ہو۔ 
٭…٭…٭
سرکاری آٹا غریبوں کی پہنچ سے دور‘ چکی آٹا پانچ روپے مہنگا‘ 15 کلو آٹے کا تھیلا 300‘ فائن آٹا 80 کلو 9500 کا ہو گیا۔ 
یہ اس اتحادی حکومت کے دور میں ہو رہا ہے جو مہنگائی پر قابو پا کر عوام کو ریلیف دینے اقتدار میں آئی تھی۔ مہنگائی کا خاتمہ تو کجا‘ اس نے تو مہنگائی کے تمام ریکارڈ ہی توڑ ڈالے‘ عوام کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ کر دیا اور اب بھی دعویٰ یہی کیا جا رہا ہے کہ جب بھی الیکشن ہوئے تو عمران خان کو بدترین شکست دینگے۔ شکست دینے کے دعوے پر تو تبصرہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ جب الیکشن ہونگے تو دیکھا جائیگا‘ فی الحال تو عوام حکومت کی اقتصادی پالیسیوں سے نالاں نظر آتے ہیں۔ نہ انہیں آٹا مل رہا ہے‘ نہ سستے داموں دال سبزی۔ ہر چیز کے نرخ آسمانوں سے باتیں کر رہے ہیں اور عام آدمی کی دسترس سے ہر چیز عملاً باہر ہو چکی ہے۔ ایسے میں الیکشن میں کامیابی کا دعویٰ کرنا خودفریبی کے سوا کچھ نہیں نظر آتا۔ ویسے اتحادیوں کو عوام کے موڈ کا اندازہ ضمنی اور بلدیاتی انتخابات کے نتائج سے ہی لگا لینا چاہیے جس میں ابھی تک تو پی ٹی آئی ہی انہیں شکست دیتی نظر آئی ہے۔ جب تک مہنگائی پر قابو پانے والے دعوے کو عملی جامہ پہناکر عوام کو حقیقی ریلیف نہیں دیا جاتا‘ حکومت کو الیکشن میں کامیابی کے دعوے سے گریز کرنا چاہیے۔ بہتر ہے کہ وہ سب سے پہلے عوام کو سستے اور میعاری آٹے کی فراہمی کو یقینی بنائے اور تنور مافیا پر قابو پائے جو روٹی اور نان کے نرخوں میں ایک بار پھر تین روپے اضافے کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں۔ حکومتی ایوانوں میں بیٹھے شوگر مافیا پر تو ہاتھ ڈالنا حکومت کے بس کی بات نظر نہیں آرہی‘ البتہ تنور‘ نان بائی‘ آٹا مالکان اور دال سبزی والوں کا تو اقتدار کے ایوانوں سے دور دور کا واسطہ نہیں‘ ان پر ہی قابو پا کر حکومت اپنی رٹ قائم کرلے۔ 

ای پیپر دی نیشن