مرجھاگیابہارمیں کیوں گلشن ِ خیال


ایک زمانہ تھا جب بزرگانِ دین کی خانقاہیں عوام الناس کی پناہ گاہیں تھیں۔شیوخِ طریقت کے پاس زندگی  کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ہمہ وقت موجودرہتے، اشاروں ہی اشاروں میں سماجی مشکلات کا حل نکل آتا،ان خرقہ پوشوں کی بات ہرخاص و عام کیلئے بڑی اہم ہوتی۔ان کی جنبشِ ابرو کے ایک اشارے سے قصر شاہی کے درودیوار لرزجاتے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ عقابوں کے یہ نشمین زاغوں کے تصرف میں آگئے۔ علامہ محمداقبال کو پنجاب کے پیرزادوں  سے ایک شکوہ تھا:
عارف کا ٹھکانا نہیں وہ خطہ کہ جس میں
پیداکلۂ فقر سے ہوطرۂ دستار
باقی کلہ ٔ فقرسے تھاولولۂ حق
طُروں نے چڑھایا نشۂ خدمت سرکار 
خدمت ِسرکار کا یہ طعنہ توآج بھی اتنا ہی اہم بھی۔لیکن یہاں ایک ایسی شخصیت کاتذکرہ کرنا مجھ پرقرض ہے جس کودیکھ کر مسلم تہذیب کی وہ سنہری شباہتیں یادآجاتی ہیں۔ آستانہ عالیہ غوثیہ شیخوشریف اوکاڑاکے سجادہ نشین حاجی افضال حسین گیلانی ؒ کا شمارایسی ہستیوں میں ہوتا ہے جو انسانی زندگی میں اس قدر دخیل ہوتی ہیں کہ انکی موجودگی کا احساس تک نہیں ہوتا،لیکن جب رخصت ہو جائیں تو ہر لمحہ ایک احساسِ رائیگانی ہمراہ چلتا ہے۔ہم حضرت افضال حسین گیلانیؒ کی نماز جنازہ میں شرکت کیلئے شہری زندگی کی چکا چوند سے دور ایک چھوٹی سی بستی میں پہنچے جہاں سید گرامی نے اپنی زندگی کے زیادہ مہ وسال گزارے تھے۔ لوگوں کا ایک جم غفیر تھا جو اپنے عہد کی اس عظیم ہستی کے جنازے میں شر کت کیلئے امڈ آیا تھا،کہا جاتا ہے کہ حضرت نظام الدین اولیاء کے وصال کا وقت آیا تو وصیت فر مائی کہ میرے جنازے کے آگے قوال وصل کی غزلیں پڑھتے ہوئے جائیں: ’’اے تما شا گاہ ِ عالم روئے تو کجا بہر تماشا می روی‘‘۔یہی منظر اس رات سادات ِ گیلانیہ کے اس بزرگ کے جنازے کا تھا۔ نمازِجنازہ سے پہلے نعت خواں حضرات آپ کاپنجابی کلام خوش الحانی کے ساتھ پڑھ رہے تھے۔لوگوں کا ایک جم غفیر،رات کے پچھلے پہر بھی موجود تھا،آنکھیں اشکبار اور دل غمگین تھے۔
حاجی سید افضال حسین گیلانیؒ سے میرا رشتہ مختلف نوعیت کا تھا۔اس رشتے کی متعدد جہتیں ہیں۔میری ان سے پہلی ملاقات احباب کے ہمراہ ہوئی،میں ان دنوں ایم فل اردو میں کسی مناسب مو ضوع ِ تحقیق کی تلاش میں سرگر داں تھا۔یہ ماہِ رمضان کی ایک گرم دوپہر تھی،ان دنوں حاجی سائیں اپنے جد ِ امجد حضرت بالا پیر ؒکی درگاہ پر قیام پذیر تھے۔وہاں انکی چلّہ کشی کی نوعیت ذرامنفرد اورجدا تھی۔انکی پیشِ نظر رہبانیت یا دنیا سے کنارہ کشی نہ تھی۔کافی عرصہ بعدیہ بات میرے مشا ہدے میں آئی کہ اس گو شے بیٹھ کرمیں وہ خلقِ خدا کے بگڑے ہوئے کام بناتے تھے۔انکی تالیف ِقلب کا  اہتمام فر ماتے تھے۔دور دراز کے دیہی علاقوں میں لوگوں کے مسا ئل بھی انکے سماج سے جڑے ہونے کے با وصف مختلف ہوتے ہیں۔حاجی سید افضال حسین گیلانیؒ لو گوں کے مقا م و مرتبے سے بالا ہوکر اپنی مخصوص قلندرانہ وضع میں انکے مسا ئل حل کرتے۔ انکے سامنے ارکان ِ اسمبلی اور عام مزدور ایک پر وٹوکول سے حاضری دیتے۔عوام الناس میں حضرت افضال حسین گیلانیؒ کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ وہ کہیںبھی تشر یف لے جاتے تو اپنی شناخت چھپانے کی پوری کوشش کرتے،ان کودیکھ کر لوگ والہانہ انداز میں بے اختیار انکی طرف لپکتے،بعض اوقات مشکلات پیدا ہو جاتیں۔ آج یہ سطور لکھنے بیٹھا ہوں تو حضرت سے وابستہ یادیں دل میں ہجوم کررہی ہیں۔
سیدافضال حسین گیلانی بنیادی طور پر ایک نفیس الطبع انسان تھے،وہ پنجابی اور فارسی کے قا درالکلام شاعر تھے،فارسی میں انکی شاعری اپنے سلسلے کے بزرگوں کی منقبت پر مشتمل ہے،پنجابی شاعری میں جو مقام انہیں میسّر تھا وہ بہت کم کسی کے حصے میں آتا ہے۔ادبی مجالس سے دوری کے با وجود ان کاپنجابی کلام جو کا فیوں،دوہوں اور دیگر اصناف پر مشتمل ہے۔عوام الناس  کے حافظے کا حصہ ہے۔ پنجابی زبان و ادب میں آپ سلطان باہوؒ، میاں محمد بخش ؒ اور خواجہ غلام فرید ؒ کے سلسلے کے شا عر ہیں، ان کا شمار بھی اہلِ نظر میں ہوتا ہے اور تصوّف برائے شعر گفتن خوب است کے مصداق انھوں نے اپنے خیالات ِ عالیہ کی تر سیل کیلئے پنجابی شاعری میںطبع آزمائی کی اور کامیاب رہے۔اس نیک عمل کیلئے وہ تمام عمرعام انسانوں میں گُھل مل کر رہے۔ نثر اور شا عری دونوں بیک وقت دسترس فی الوقت ہماری خانقا ہوں میں مفقودہے۔انکے گھرانے میں اکثر لوگ علم وا دب کی دنیا سے وابستہ تھے۔
حاجی سید افضال حسین گیلانیؒ کی شخصیت ایک ایسے جزیرے کی سی ہے جس کو جس زاویے سے دیکھیں نیا پن محسوس ہوتا ہے۔راقم نے اپنے ایک مضمون میں لکھاکہ’’قرآن مجید کا لفظ ’’اقرا ‘‘ یعنی پڑھ اہل علم کیلئے ایک نشانی ہے اور مولانا رومی ؒکی مثنوی کا پہلا لفظ’’ بشنو یعنی سن اس کا جواب ہے۔ حاجی سیدافضال حسین گیلانیؒ نے جب یہ مضمون پڑھا تو بہ طور خا ص سر پر ستی فر مائی،اس نکتے نے انھیں سر شار کر دیا تھا، دراصل وہ مولانا رومیؒ کے بھی سچے عا شق تھے۔انھوں نے ادیبہ مستور کے قلمی نام سے بھی بہت سے مضامین رقم کیے، وہ بہت صا حب ِ مطا لعہ انسان تھے۔میں نے کہیں پڑھا ہے کہ نوبل انعام یافتہ شاعر رابند ر نا تھ ٹیگور کی لا ئبریری میں شا عری اور فکشن کے علاوہ بہت سی کتا بیں تھیں۔مثلاََ مرغ بانی اور خربوز ے کے خواص وغیرہ۔ مطا لعے کی یہی جہتیں انسان کو نابغہ عصر بناتی ہیں۔ حاجی سائیں ؒکے زیرِ مطا لعہ کتب تصوف، حکمت،علم وادب، فکشن، شاعری کے علاوہ ڈائجسٹ بھی تھے،ایک روز میں نے سوال کیا یہ تو سستا ادب ہے، آپکی علمی تشفی اس سے کیوں کر ہوتی ہے۔فر مانے لگے ڈائجسٹوں نے بڑے حد تک سستا ادب شائع کرکے عوام الناس کی خدمت کی ہے۔میں حیران رہ گیا کہ یہاں بھی عوام کی خدمت کا پہلو پیش نظر رہا۔جنازے میں کسی نے میرے کان میں کہا ،اتنا بڑا ہجوم؟،میں نے اسے جواب میں یہ شعر سنایا:
ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں
فقط یہ بات کہ پیر ِمغاں ہے مر دِ خلیق
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن