پاکستان میں غیر مسلم یا اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد اس وقت مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ مختلف سیاسی جماعتوں میں اقلیتی سیاسی کارکن ایوانوں کا حصہ ہیں جہاں وہ اپنی آئینی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں تا کہ پاکستان ترقی و کامرانی کے سفر پر گامزن رہے۔ کامران مائیکل، کرشنا کماری، سردار کلیان سنگھ، الغرض بہت سے ایسے نام ہیں جن کا تعلق پاکستان کی اقلیتی برادریوں سے ہے اور وہ ملک پاکستان کا جھنڈا تھامے ہوئے اسے سینے سے لگائے ہوئے اپنی اپنی سطح پر ملک کی خدمت کر رہے ہیں تا کہ پاکستان کا نام دنیا بھر میں روشن ہو سکے۔ افواجِ پاکستان میں بھی مسیحی، ہندو اور سکھ برادریوں سے تعلق رکھنے والے جوان ملک کی سرحدوں کی حفاظت کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔ ماضی میں بھی مختلف اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے جوان اور افسران افواجِ پاکستان کا حصہ رہے ہیں جنھوں نے ملک پر جان وا ر کر دھرتی کا قرض ادا کیاہے۔
اس وقت کیلاش کمار جن کا تعلق ہندو برادری سے ہے پاک فوج میں لیفٹیننٹ کرنل کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں اور وہ پاک فوج کے ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے پہلے آفیسر ہیں جو لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر فائض ہوئے ہیں۔ کیلاش کمار کا تعلق تھر جیسے پسماندہ علاقے سے جہاں سے وہ پاک فوج میں کمیشن لے کر اعلیٰ مقام تک پہنچے ہیں جو یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ پاک فوج ایسا ادارہ ہے جہاں بغیر کسی سفارش اور خاندانی اثر و رسوخ کے کوئی بھی اعلیٰ مقام حاصل کر سکتا ہے۔ یہی پاک فوج کی سب سے بڑی خوبصورتی اور پہچان ہے کہ خالصتاً میرٹ کا نظام کام کرتا ہے اور پاکستان کے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد پاک فوج میں شامل ہو کر اعلیٰ مقام تک پہنچنے کا جو خواب رکھتے ہیں اسکو حقیقت کی صورت بھی دے سکتے ہیں۔
خیر بات ہو رہی تھی کہ افواجِ پاکستان میں اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والے جوانوں اور افسران نے کیا کارہائے نمایاں سر انجام دیے۔ گروپ کیپٹن سیسل چودھری ہوں یا سکوارڈن لیڈر پیٹر کرسٹی انھوں نے پاک فضائیہ میں شامل ہو کر قربانی کی داستانیں رقم کیں جو سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ ماسٹر فائٹرکے نام سے مشہور سکواڈرن لیڈر پیٹر کرسٹی کو1965ء کی جنگ کے دوران بی 57 اڑانے پر ستارۂ جرت سے نوازا گیا۔۔وِنگ کمانڈر مرون لیسلی مڈل کوٹ پاک فضائیہ کے ایک فائٹر پائلٹ تھے جنھوں نے اپنے ملک کے لیے جان دے دی۔ جب ہندوستانی فضائیہ نے 1965ء کی جنگ میں کراچی پر حملہ کیا تو مرون کو کراچی کے دفاع کے لیے ایک ایف 86 سیبر طیارے کے ساتھ روانہ کیا گیااور انھوں نے دشمن کے دو طیارے تباہ کردیے جس کی وجہ سے انھیں ’ڈیفنڈر آف کراچی‘ کے ٹائٹل سے نوازا گیا۔ 1972ء میں اسرائیل کے خلاف چھ روزہ جنگ کے دوران وہ پاک فوج کی جانب سے اردن میں موجود تھے جہاں وہ ایک مشکل مشن کے دوران شہید ہوئے۔
پاکستانی فضائیہ کی تاریخ میں سیسل چودھری کا نام ایم ایم عالم جیسے فائٹر پائلٹ کے ساتھ لیا جاتا ہے جنھوں نے 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں دشمن کے کئی جہاز تباہ کیے۔ 1965ء کی جنگ میں سیسل چودھری نے دشمن کے تین طیارے تباہ کیے اور ان کی بہادری اور جرأت کی وجہ سے انھیں ستارۂ جرات سے نوازا گیا۔ 1971ء کی جنگ میں ایک معرکے میں زخمی ہونے کے باوجود سیسل چودھری نے کئی فضائی مہمات میں حصہ لیا اور دشمن کو بھاری نقصان پہنچایا۔ان کی دلیری کی وجہ سے انھیں ستارۂ بسالت سے نوازا گیا ۔ جولین پیٹر کا نام بھی تاریخ میں امر رہے گا کہ وہ پاکستان کے پہلے مسیحی تھے جو پاک فوج میں میجر جنرل کے عہدے تک پہنچے۔ انھوں نے 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں بھی حصہ لیا اور 2004ء میں ریٹائر ہوئے اور انھیں ملک کی خدمت کے صلے میں ہلالِ امتیاز سے نوازا گیا۔
الغرض اب بھی افواجِ پاکستان میں ایسے افراد موجود ہیں جن کا تعلق اقلیتی برادری سے ہے اور وہ وطن پر جان نچھاور کرنے کا جذبہ لیے اپنی خدمات دے رہے ہیں۔پاکستان میں بسنے والے چاہے مسیحی ہوں، ہندو ہوں، سکھ ہوں یا کسی بھی مذہبی اقلیت سے تعلق رکھنے والے افراد ہوں، یہ سب پاکستان سے محبت کرنے والے لوگ ہیں اور پاکستان بھی ان کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے یہ افراد بھی مسلمان شہریوں کی طرح اس گلدستے کا حصہ ہیں جسے پاکستان کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ پاکستان کی اقلیتی برادریاں ہیں جنھوں نے قیام پاکستان سے لے کر آج تک ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار بخوبی نبھایا۔ ان برادریوں کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو یہ پاکستان کی پہچان ہیں جنھوں نے پاکستان کے استحکام میں کلیدی کردار ادا کیا اور ان کے اس کردار اور قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ پاکستان مختلف برادیوں کا گلدستہ ہے جس میں ہر پھول کی اپنی مہک، اپنی خوشبو، اپنا رنگ، اپنی اٹھان اور اپنی شان ہے ا ور ان سب برادریوں کی پہچان پاکستان ہے۔
٭…٭…٭