ورلڈ کپ جیتنے سے قبل اور بعد عمران خان نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا میں شہرت کی بلندیوں کو چھو رہے تھے۔ شہرت اور عزت کا معیار یہ تھا کہ ملکہ برطانیہ عمران خان کے اعزاز میں شاہی پروٹوکول میں عشائیہ دینے پر فخر محسوس کرتی تھیں۔ شاہی خاندان کی بہو لیڈی ڈیانا جس کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے دنیا مر مٹنے کو تیار تھی نہ صرف برطانیہ بلکہ پاکستان آکر شوکت خانم کیلئے فنڈ ریزنگ کرنا باعث اعزاز سمجھتی تھیں۔ دنیائے کرکٹ کے سپر سٹارز سے خان کی دوستیاں تھیں اچانک ایک موڑ آیا اور دنیا کے نامور ترین خاندان گولڈ سمتھ جو اپنی دولت کے لحاظ سے پہلے نمبروں میں شمار ہوتے ہیں نے جمائما گولڈ سمتھ کو عمران خان کے ساتھ شادی کے بندھن میں باندھ دیا۔ اس شادی کا پوری دنیا میں چرچا ہوا، جمائما سے شادی کے کچھ عرصہ بعد سیاست میں بھی انٹری دے ماری۔ یہ تھا عمران خان کے عروج کا مختصر تعارف۔ دوسری جانب نواز شریف تھے جنکے سیاست میں انٹری سے قبل انکے حلقۂ احباب میں بھولی جوس والا، نفیس دہی بھلے، ریگل چکٹر چنے، گوالمنڈی کے چند کونسلرز وغیرہ وغیرہ تھے۔ نواز شریف ہمیشہ انہی کے گرد گھومتے رہے۔ بعد ازاں وہ بھی سیاست کے بھنور میں پھنس گئے۔ نوازشریف رفتہ رفتہ بلندی کا سفر طے کرنے لگے۔ تین مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کا منصب اپنی دانشمندی سے حاصل کیا جس دوران اُنکے کریڈٹ پر ملک میں موٹرویز کے جال بچھائے گئے۔ لاتعداد عوامی اور فلاحی منصوبے لائے گئے عوام کے مفادات کو ترجیح دی گئی۔ معیشت کو مستحکم رکھنے میں اپنے قریبی عزیز اور دوست اسحاق ڈار سے مدد لیتے رہے۔ مہنگائی کے جن کو قابو رکھا۔ نوازشریف کے چھوٹے بھائی شہبازشریف ملک میں نمبر ون گڈ ایڈمنسٹریٹر کے طور پر سامنے آئے انہوں نے بھی اپنے بڑے بھائی کے قدم سے قدم ملاتے ہوئے پنجاب میں بجلی گھروں کا قیام لاتعداد پل، سڑکیں، ہسپتالوں کا قیام عمل میں لاتے رہے۔ جدید علاج اور تعلیم کیلئے بھی گرانقدر خدمات انجام دیں۔ نوازشریف نے اُس وقت پوری دنیا کو حیرانگی میں ڈال دیا جب بہترین سفارتکاری کرتے ہوئے دشمن ملک بھارت کی پُرتشدد سیاسی پارٹی سے منتخب وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کو لاہور میں لا اُس مقام پر کھڑا کیا جس کی بھارت ہمیشہ سے نفی کرتا آیا ہے۔ یادداشت کی کتاب میں اٹل بہاری واجپائی نے قرارداد پاکستان اور مستحکم پاکستان کی ریاست کو مینار پاکستان کے سائے تلے تسلیم کر لیا۔ جب کارگل میں مشکلات بڑھیں تو ایک فون کال پر بغیر کسی اپوائٹمنٹ کے اُس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کو ثالث کے طور پر شامل کیا اور ایٹمی جنگ کی جانب بڑھتے ہوئے قدموں کو روک لیا۔ سفارتکاری کے حالات یہ تھے کہ اب دنیا کی ایک بڑی حقیقت طاقتور ریاست چین کے صدر نواز شریف کے ذاتی دوست ہیں۔ ہمارے بُرے حالات میں ہمیشہ کام آنے والا برادر اسلامی ملک سعودی عرب کے بادشاہ ترکیہ کے صدر اَُردگان، قطر کے فرمانروا اور بہت سے سربراہ مملکت نوازشریف، شہبازشریف کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتے ہیں۔ یہ تھا گوالمنڈی سے سربراہ مملکت سے دوستیوں کا حال احوال۔ اب عمران خان صاحب کی بات کرتے ہیں جب نواز شریف گوالمنڈی میں گھوما کرتا تھے تو عمران کی عزت سربراہ مملکت کرتے تھے۔ تازہ ترین حالات یہ ہیں کہ ملکہ برطانیہ، شہزادہ چارلس، گولڈ سمتھ خاندان کے داماد نے ترقی کی بجائے تنزلی کی طرف سفر طے کرنا شروع کر دیا۔ جمائما گولڈ سمتھ سے علیحدگی کے بعد ایک عام سی نیوز کاسٹر سے بیاہ رچا لیا۔ اُن سے اختلافات کے بعد گولڈ سمتھ فیملی سے شروع ہونیوالا سفر اب آخر کار پاکپتن جا کر پایہ تکمیل تک پہنچا اور انہوں نے ایک روحانی پیر کی شہرت رکھنے والی خاتون بشریٰ بی بی سے بیاہ کر لیا۔اُنکی سابقہ بیوی ریحام خان کی کتاب کے حوالے سے کچھ لکھیں تو عمران خان کی شخصیت مزید واضح ہو جائیگی مگر ریحام کی کتاب کے حوالے دینے کے بعد وہ جو سلوک کسی بھی صحافی سے کر سکتے ہیں اُسکا منہ بولتا ثبوت محسن بیگ کی شکل میں ہمارے سامنے ہے کہ انہیں کس طرح انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔
عمران خان کی سفارتکاری کے حالات یہ ہیں کہ ہمارے بُرے وقت میں آنیوالے برادر ملک کے محمد بن سلمان گھڑی بیچنے سے قبل ہی اس قدر ناراض ہوئے کہ عمران خان کو امریکہ جانے کیلئے دیا اپنا رائل طیارہ فضا میں اُڑان بھرتے ہی واپس اتروا لیا اور حکم دیا کہ اب کمرشل فلائٹ میں واپس جائیں جس پر سونے پہ سہاگہ کے مترادف گھڑی والا واقع ہو گیا۔ امریکہ کیخلاف اتنی تقاریر کیں کہ قریب تھا کہ اگر انکی حکومت ہوتی تو ہمیں بیل آؤٹ پیکج نہ ملتا اور ہم ڈیفالٹ کر جاتے۔ یو این اسمبلی کے اجلاس میں صدر اُردگان اور مہاتیر محمد کو اسلامی ممالک کی سربراہی میں کانفرنس بلانے کیلئے آمادہ کیا جب انہوں نے اعلان کر دیا تو سعودیہ کی جانب سے ایک پیغام وصول ہونے کے بعد موصوف صاف مکر گئے۔ یعنی اُن ممالک کے سربراہان کو شدید ناراض کر دیا۔ اپنے دور حکومت کے عروج پر کشمیر بغیر کسی حل و حجت کے انڈیا کے احوالے کردیا۔ افغانستان اور ایران سے بھی تعلقات انتہائی کشیدہ تھے۔ امریکہ کو ناراض کر کے روس کے دورے پر گئے۔ روس نے یوکرائن پر اُسی روز حملہ کر دیا۔ یورپی یونین نے پاکستان کی روسی حمایت سمجھی اور اس کا بائیکاٹ کر دیا۔ کچھ عرصہ قبل روس کے دورے پر جانے کا بیان دیکر کہ ’’بڑی غلطی تھی‘‘ اس طرح روس کو بھی ناراض کر لیا۔ نوازشریف حکومت ڈالر ایک سو بیس روپے پر چھوڑ کر گئی۔ موصوف نے اڑھائی سو سے کراس کرا دیا۔ 70 سالوں میں جتنی حکومتوں نے قرضے لیے اُن سے دوگنا چار سالہ دور میں قرض لیا سب کچھ تباہ و برباد کر دیا۔ ملک کا چار سالہ دور میں دیوالیہ نکال دیا گیا۔ نااہل ترین بندے کو وزیراعلیٰ پنجاب لگا کر پنجاب کو بھی تباہ و برباد کیا۔ لوٹ مار عام رہی۔ اب آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارے ملک کیلئے کون سے حکمران بہتر ہیں۔
نوازشریف اور عمران خان کی سیاست کا موازنہ
Dec 17, 2022