” غم ہم کو دیا سب سے جو مشکل نظر آیا“


دو قبروں کے درمیان کھڑے ہو کر دعا کےلئے ہاتھ اٹھائے تو ایک دن کی تازہ قبر جس کی مٹی کی بھینی بھینی خوشبو مسحور کر رہی تھی اور دوسری قبر تقریباً پچاس برس پرانی تھی مگر سوگواروں کےلئے اتنی ہی تازہ تھی کہ انہیں بھی ابھی ابھی حوالہ لحد کیا ہو۔ پچاس سال پرانی قبر مےرے محسن اور مربی دوست کے والد صاحب کی تھی اور تازہ قبر ان کی والدہ ماجدہ کی ۔ قبروں کی کہانی صرف مےرے دوست کی زبانی ہی نہیں پورا علاقہ سارا دن تعزیت اور پرسے کے دوران اعتراف کرتا رہا کہ چار بھائیوں اور دو بہنوں کے سر سے جب پدرانہ سایہ سرک کر زیر زمین چلا گیا تو ایک بچہ ایک سال کا، دوسرا اڑھائی سال کا اور تیسرا اور چوتھا جن کی عمروں میںبالترتیب ڈیڑھ یا دو سال کا فرق تھا باپ کی رحلت کے بعد بھائی اور ایک بہن اور ایک بھائی والد کے پہلوں میں خاک اوڑھ کر آسودہ خاک ہوئے۔ کوئی تصور کر سکتا ہے کہ پچاس سال قبل نہ سڑک ،نہ بجلی، نہ پانی، نہ گیس، نہ مسجد، نہ سکول، وسائل کا یہ عالم تھا کہ گھر کے آنگن اور فصل کا فاصلہ اتنا ہی تھا جتنی دور قبریں ۔ مکئی کی فصل کے علاوہ کسی فصل کا گمان تک نہ تھا۔ وہ جواں ہمت بلکہ عالی عزم کا نشان عورت جس کا آنچل قدرت نے واپس لے لیا ۔ پہاڑ کی زندگی میں ہمالیہ سے بڑے حوصلے والی پاکباز عورت ہی جوانی کو اور اولاد کے خوابوں ، جلتے چولہے کی دیوار کو آگ سے راکھ نہیں ہونے دیا گویا اس قسم کی آگ میں جل کر بچوں کو کندن بیایا۔
ڈھور ڈنگروں کی خدمت اولاد سے بڑھ کر کی۔ دودھ لسی اور مکھن سے بہتر کوئی اور نعمت نہیں ہوتی ایسی ہی عظیم مائیں کہتی ہوتی تھیں کہ جس کو اللہ نے پتر اور دودھ دیا ہو ۔ اس نے پیچھے کیا رہنے دیا؟ اتنے اطمینان سے ہمکنار کوئی ولی اللہ ہی ہو سکتا ہے کہ صعوبت کو صبر کے آنچل میں پلے باندھے رکھنا۔
جس گھر میں یتیم کے ساتھ حسن سلوک ہوتا ہو ۔ آقائے کل جہاں کی سنت اور کائنات کی عظیم ترین ماں صبر کے صدقے اللہ ایسی ماو¿ں کو و ہ مقام عطا کرتا ہے کہ آقائے نامدار امام کائنات ٹھہرے اور اس گھر کا پروردہ ایک بچہ حافظ قرآن ، قاری، عالم دین اور ایسی سماجی شخصیت کے روپ کی صورت میں پروان چڑھے کہ مائیں فخر کریں کہ صورت اور سیرت ایسی ہو تو آنے والی اور جانے والی نسلوں کی بھی بخشش کا ذریعہ بنیں۔قاری راشد نواز کی اقتدا میں نمازیں اور جمعے کی سعادت عرصہ دراز تک حاصل رہی ، شخصیت سے لیکر خطابت میں ایسا سحر کہ دور سے دیکھ کر انسان دل ہتھیلی پر رکھ کر انہیں پیش کر دے۔ ضابطے اور اصول شریعت مطہرہ سے اےسے سانچے میں ڈھلے کہ جنہیں دیکھ کر لوگ دعائیں کریں ان کے والدین بھی دین کی اس لڑی کا منکہ بنیں اولاد والدین کےلئے صدقہ جاریہ۔
جس روز آپ کی والدہ کا انتقال ہوا کوئی ایسی مسجد نہیں تھی کہ جہاں پر ہر نماز میں امام سے لیکر نمازیوں نے بلک بلک کر اللہ سے ان کی والدہ کے درجات کی بلندی کی دعا نہ کی ہو۔ اگلے دن نماز فجر کے بعد مسجد حسین ؓ سے پےدل ہی نکلا تو دل کی دھڑکن اور تسبیح کے دانوں میں مقابلے سے لطف اندوز ہوتا ہوا اور غمگساری کے پہاڑ نما حصار کو چیرتا ہوا فریاد کیطرح اپنے آنسوو¿ں کی فریاد لیکر ان کے والدین کے قدموں میں پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ کوئی آنکھ اگر اشک بار نہیں تھی تو دل ضرور اللہ تعالیٰ کے حضور فریاد کناں تھا۔
پہاڑ سے بھی بلند عزم اور کردار کی حامل اس نیک سرشت ماں کو آقائے اہلبیت ، صحابہ کرام اور اولیا کی ماو¿ں کی صفت میں جگہ عطا فرما کر تےرے ہاں نا انصافی نہیں ہے اور یہ کہ تو اور تیرا حبیب جس سے خوش ہو جائیں طرفین سے صلہ محنت سے زیادہ عطا ہوتا ہے ۔جس ماں نے اپنے مجازی خدا کی نشانیوں کو اور اُن کی یاد کو کلیجے سے لگا کر ساری خواہش اور سارے ارمان پر اٹھنے والی آہوں اور آنسوو¿ں سے کسی کو باور نہیں ہونے دیا کہ یہ گیلی لکڑیوں سے جلنے والی لکڑیوں کے دھوئیں سے آنے والے آنسو ہیں یا تن نتہا ننھی کونپلوں کو پروان چڑھانے کے دکھ کے آنسو ہیں۔ اے اللہ جس نے تیرے حکم پر اپنا بھی پردہ رکھا اور اس دور کی ماو¿ں کو بھی سبق دے گئی کہ اولاد کی تربیت وسائل کے بغیر بھی ہو سکتی ہے اور اےسے مثال اور کرداررکھنے والے لوگوں کےلئے دنیا میں کامیابی اور آخرت میں جنت انتظار میں رہتی ہے ۔
قسمت نے کیا ہر چیز کو قسام ازل نے
جو شخص کہ جس چیز کے قابل نظر آیا
بلبل کو دیا نالہ ، تو پروانے کو جلنا
 غم ہم کو دیا سب سے جو مشکل نظر آیا

ای پیپر دی نیشن