فرمان رب کریم ہے اور جب لوگوں میں فیصلہ کر نے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔اللّہ تمہیں بہت خوب ہدایت کرتا ہے ۔بے شک اللّہ سنتا اور دیکھتا ہے ( النسا ) عدل کے معنی حق دار کو اس کا پورا حق ادا کر دیتا ہے ۔اسلام میں عدل و انصاف پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے چو ں کہ یہ وہ وصف ہے جسے اپنا نے والی اقوام سر بلندی و سرفرازی سے ہم کنار ہوتی ہیں اور جن معاشروں میں اس گو ہر گرا ں مایہ سے محرومی پائی جاتی ہے روبہ زوال ہوکر تباہی و بربادی سے دو چار ہو جاتی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید اور احایث مبارکہ میں عدل و انصاف کے قیام پر بے انتہا زور دیا گیا ہے بہ حثیت مسلمان ہم پر لازم ہے کہ ہم اللّہ رب کائنات کے احکامات اور اور اللّہ کے رسول کے ارشادات مبارک پر کما حقہ عمل پیرا ہوں اور جب اللّہ اور اس کا رسول کسی بات میں فیصلہ کر دیں تو دل کی گہرایوں سے تسلیم کر لیں اور انہی احکامات کی روشنی میں اپنے معاشرے میں سہی معنوں میں عدل و انصاف کو جاری کریں ۔مالک کائنات نے اہل ایمان کو تا کید فرمایا کہ جب بھی لوگوں کے درمیان فیصلہ کر نے لگو تو عدل و انصاف سے فیصلہ کیا کرو یعنی اگر کوئی حکم راں ہے یا منصف قضا پر فائز ہے یا پنچایت کا سربراہ اسی طرح برادری کا بڑا ہو کوئی بھی شخص کسی بھی لحاظ سے انصاف کر نے کی حق میں ہو تو اسے چاہئے کہ وہ فریقین کے دلائل حالات و واقعات اور شہادتوں یا اقرار کی صورت میں ٹھیک ٹھیک عدل کرے اور مظلوم کو اس کا پورا حق دلا ے اور ظالم و غا صف کے خلاف قرآن و سنت کی روشنی کاروائی کرے ۔آج کے لوگو درحقیقت عدل و انصاف ایسا عالی و صف ہے جو کسی بھی قوم یا معاشرے کو استحکام عطا کرتا اور بقا کی ضمانت فراہم کرتا ہے اور انصاف بھی ایسا ہو جو سب کے لئے یکساں ہو یہ عدل نہیں کہ اگر کوئی امیر آدمی جرم کرے تو اسے چھوڑ دیا جائے جب کہ غریبوں کو سخت سزا دی جائیں جیسا کہ ہمارے معاشرے میں دکھائی دیتا ہے اور یوں کہا جاتا ہے کہ قانون بنایا ہی اس لئے جاتا ہے تاکہ توڈا جائے اور بدقسمتی سے ہمارے اس عظیم مملکت پاکستان سب سے زیادہ قانون شکنی واہی لوگ کرتے ہیں جو اسمبلیوں میں بیٹھ کر قانون پاس کرتے ہیں حالاں کہ اسلامی معاشرے میں ایک عام آدمی سے لے کر امیر تک سب احکامات شر عیہ کے پا بند ہوتے ہیں ۔اللّہ ہم سب کا حامی و مدد گار ہو.... رسول کریم نے ابوذرؓ سے پوچھا”ایمان کی کونسی کڑی زیادہ مضبوط ہے“ عرض کیا اللہ اور اُس کے رسول خوب جانتے ہیں فرمایا”اللہ کے لئے باہم ایک دوسرے کی مدد کرنا۔اللہ ہی کی خاطر دوستی کرنا اور اللہ کی خاطر دشمنی کرنا“ ۔عام طور پر لوگ ایک دوسرے سے دوستی یا محبت کا اظہار دنیوی اغراض اور مفادات کی وجہ سے کرتے ہیں ۔ ایسی دوستی اسلئے پائیدار نہیں ہوتی کہ ادھر غرض پوری ہوئی اُدھر تعلقات ختم ہو گئے اور اکثر اوقات نتیجہ دشمنی کی شکل میں نکلتا ہے۔باہمی تعلقات کی بنیاد ذاتی اغراض اور منفعت کی بجائے اللہ کی خوشنودی کے لئے ہونی چاہئے اور ایمان کا پکا وہی شخص ہوتا ہے جو دوسروں سے محض اللہ کے لئے تعلق رکھتا ہو۔ایسے لوگوں کو حدیث میں بشارت دی گئی ہے کہ ”جو لوگ آپس میں محض اللہ کے لئے محبت کرتے ہیںوہ دنیا میں بھی اور قیامت میں بھی ایک دوسرے کے دوست اور مدد گار ہونگے اور خواہ وہ دنیا میں ایک دوسرے سے دور ہوں قیامت کے دن اللہ انہیں ملادے گا“ارشاد نبوی ہے"جس نے کسی سے دوستی اور محبت کی تو اللہ کے لئے کی اور دشمنی کی تو اللہ کے لئے کی اور کسی کو دیا تو اللہ کے لئے دیا اور کسی سے روکا تو اللہ کے لئے روکا اس نے اپنے ایمان کو کامل کرلیا یعنی وہ پورا مومن ہو گیا“۔
عدل و انصاف بقائے اقوام کا ضامن
Dec 17, 2022