اللہ کی محبت آبِ حیات

شاز ملک 
مجھے لگتا ہے انسان رب تعالی کی بہترین تخلیق۔۔ میرا ماننا ہے کہ انسان رب تعالی کا اسیر ، میرا احساس یہ کہتا ہے کہ انسان رب پاک کی دنیا کے افق پر لکھی وہ تحریر ہے جسے لکھنے کے بعد سوہنے رب نے کچھ نہیں لکھا۔۔ ایسی تخلیق جسے بنانے کے بعد رب تعالی نے کوئی اور افضل شئے تخلیق نہیں فرمائی۔میرا شعور مجھے یہ سمجھاتا ہے کہ انسان اللہ ربْ العزت یعنی خالق کائنات کی محبوب ترین تخلیق ہے۔ جب انسانی دماغ قلب سلیم واور روح کلمہ کے مقدس الفاظ پڑھکر رب تعالی کی وحدانیت پر ایمان لاتا ہے تو کلمہ طیبہ کی طہارت اللہ اور محمد نبء پاک صل اللہ علیہ وسلم کی محبت کا نور ان مقدس الفاظ کے ذریعے رگ رگ میں سرایت کر جاتا ہے اور ان رکوں میں بہتا خون اسے ہمیشہ کے لئے یوں اپنے اندر جذب کر لیتا ہے۔کہ دنیا کی کوئی طاقت اسے خون کے کسی بھی قطرے سے باہر نہیں نکال سکتی۔سو اللہ پاک کی محبت سب محبتوں سے افضل قرار پائی اس محبت کا فطری سکون مجھے یہ باور کراتا ہے کہ رب کی تخلیق انسان اپنے خالق اپنے مالک کے تصور اسکی یاد اسکے ذکر کے بنا ادھورا ہے اس کے دل کا جنون جسم کا چین اور روح کا سکون فقط اللہ پاک کی محبت کے ساتھ منسلک ہے اس پاک محبت کا نور آدم علیہ اسلام کی تخلیق کے ساتھ انکی مٹی میں گھولا گیا جب اللہ نے آدم علیہ اسلام کی مٹی کی طرف نگاہ کی بس یہ پہلی نگاہ بس یہ پہلی نظر کا مقدس نور رب تعالی کی محبت بھری  نگاہ کے نور کی لہر آدم کی مٹی کے روم روم میں سرایت کر گئی پس انسان ازل سے اللہ کی محبت کا اسیر ہے وہ دنیا کی ہر محبت کے بنا جی سکتا ہے مگر اللہ کی محبت کے بنا نہیں جی سکتا 
مجھے بار بار بس یہ محسوس ہوتا ہے کہ ایک سرور ایک انوکھے نور کا سحر انسان کے دل کو اپنا اسیر بنائے ہوئے ہے۔۔۔ میں رب کعبہ کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ جب انسان اپنی مٹی میں گھلی رب پاک کی محبت کو محسوس کرنا شروع کرتا ہے تو پھر دلوں پر پڑے دنیا داریوں کے پردے ہٹنے لگتے ہیں اغراض کے پہاڑ ٹوٹ ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔۔اللہ کی محبت کا کیف دل کو ہر خواہش نفس سے پاک کر دیتا ہے۔تب انسان کے دل کو اللہ کا تصور ہر شئے سے بیگانہ کر دیتا ہے ہر دنیاوی محبت ہیچ اور بے کار وقت کا ضیاع اور جھوٹ لگتی ہے سچ کہوں تو انسان کے دل کی کی گھٹی میں پڑی اللہ سوہنے کی محبت اسکا اصل سرمایہء حیات ہے۔۔ اور انسان اس سرمایہ حیات کو کھونے کا تصور ہی نہیں کر سکتا کم از کم مجھ جیسی گناہگار بھی اس کا تصور ہی نہیں کر سکتی کہ میرے دل دماغ روح اور جسم کے ریشے ریشے میں اللہ کی محبت نہ سمائی ہو۔۔ اور مجھے یہ ڈر بھی رہتا ہے کہ میرا سرمایہ حیات یہ محبت خدانخواستہ کہیں مجھ سے چھن نہ جائے 
میری زندگی میں کوئی ایسا لمحہ نہ آئے جب مجھے غیر اللہ کا تصور ہو۔۔ بس جب سے یہ فکر دامن گیر ہوئی میں نے رب تعالی کی بارگاہ میں رو رو کر عافیت کی دعا مانگنی شروع کر دی اور پھر اس دعا کی قبولیت یوں ہوئی کہ یکایک مجھے اپنے دل کے نہاں خانوں میں اتر کر دیکھنے کی توفیق ملی تو وہاں تو خواہشات کا بے کار انبوہ نظر آیا  دنیاوی محبتوں کا بد بو دار ڈھیر نظر آیا آرزؤؤں کا کوڑا کرکٹ۔۔بے کار جذبوں کا کچرا بکھرا پڑا تھا جسے میں نے توفیق رب سے اٹھا کر باہر پھنکدیا توبہ کے اشک ندامت سے  دل کے ہر کونے کو دھو کر دنیاوی اغراض کی گندگی کو صاف کیا  تب میرے رب کریم نے میرے دل کو دل درگاہ بنا دیا اور تبھی یہاں میری اپنی روح سے پہلی ملاقات ہوئی میں محبت کے آئینے میں اسکا عکس دیکھ رہی تھی وہ نقاہت بھرے لہجے میں مجھ سے مخاطب ہوئی شکر الحمدْ للہ کہ رب پاک کی توفیق سے میں مجھے بھی زندگی کا احساس ہوا ہے وگرنہ میں تیرے جسم کے کونے کھدروں میں روتی پھرتی تھی کہ مجھے رب پاک کی یاد کی لطافت کا نور نہیں مل رہا تھا  تمہیں پتا ہے ذکر ربی کا نور میری خوراک ہے جس سے مجھے زندگی جینے کا احساس ملتا ہے۔۔ سجدۂ شکر میری محبوب عبادت ہے۔۔ شکر الحمدْ للہ شکر الحمدْ للہ کہ تمہیں رب پاک نے توفیق دی کہ تم نے دل کی کالی گندی کوٹھری کو اس کیکرم سے  ہر غرض کے بت کو توڑ کر توبہ کے آنسوؤں سے دھو کر اسے پاک صاف کر دیا۔۔ میں ندامت کے بہتے اشکوں کہ لہروں میں ڈول رہی تھی وہ میرے آنسؤں کو صاف کرتے ہوئے خوشی سے جھوم کر کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے کہنے لگی اب تم مجھے اس درگاہ میں رب تعالی کی یاد کے سجدے میں مست الست پڑی دیکھنا۔۔اب میں کبھی اس درگاہ سے نہیں نکلنا چاہتی اپنے مالک کی محبت اسکی یاد کے سکون کی لطافت کو محسوس کر کے اسکے ذکر پر سجدۂ محبت میں ہی فنا ہو نا چاہتی ہوں بس یہی میرا مرکزِ حیات ہے۔۔ یہی میرے اندر بسی نورانیت کا مظہر۔۔۔۔یہی اس  کائنات میں میرے ہونے کا مقصد۔۔۔ باقی سب کچھ ہیچ بے مقصد ہے  بے کار ہے۔۔اور اس سچ سے بڑھ کر کوئی سچ نہیں ہے کہ میرے سوہنے رب پاک کی محبت ہی وہ آبِ حیات ہے جسے پینے کے بعد ہی انسان جینا شروع کرتا ہے ایسی زندگی جو سکون سے بھری اور محبت کے نور کی لطافت سے بھری ہوتی ہے۔۔۔ہو سکے تو آؤ اس آب حیات کو پی کر جی جاؤ ۔۔مست و الست ہو جاؤ۔۔۔۔یء کہہ کر وہ سجدے میں گر گئی۔۔مجھے لگا مجھے اپنے ہونے کا احساس مل گیا میں بھی اللہ اکبر کہتی ہو? سجدے میں گر کر رب تعالی کے شکر کا کلمہ پڑھنے لگی 
اس احساس کے یقین ایمان کے ساتھ کہ بے شک اللہ کی محبت ہی آبِ حیات ہے۔۔

ای پیپر دی نیشن