’’ مختلف سیاستدانوں سے ملاقاتیں! ‘‘
معزز قارئین ! لاہور سے ڈھاکہ روانہ ہونے سے پہلے مَیں نے روزنامہ ’’امروز‘‘ لاہور سے متعلق اپنے دو دوستوں برادران شفقت تنویر مرزا ( مرحوم) اور ماشاء اللہ واشنگٹن واسی اکمل علیمی سے ڈھاکہ یونیورسٹی کے کئی پروفیسر زاور بائیں بازو کے دانشوروں کے نام تعارفی خطوط حاصل کر لئے تھے، جب مولانا احتشام اْلحق تھانوی کو کسی جلسے سے خطاب نہ کرنا ہوتا تو، مَیں اِدھر اْدھر چلا جاتا۔ مَیں نے مسلم لیگ کے لیڈر نوراْلامین صاحب کے علاوہ کراچی کے مفتی اعظم ، مولانا مفتی محمد شفیع ، نظام اِسلام پارٹی کے سیکرٹری جنرل مولوی فرید احمد ، جماعتِ اسلامی مشرقی پاکستان کے امیر مولانا غلام اعظم خان اور دوسرے کئی لیڈروں سے انٹرویو ز کئے۔ مَیں نے ہوٹل سے شیخ مجیب اْلرحمن کو ٹیلی فون کِیا تو اْنہوں نے مجھے دوسرے دن کا وقت دے دِیا لیکن ، جب مَیں مقررہ وقت پر علاقہ ’’ دھان منڈی‘‘ میں اْن کی رہائش گاہ پر پہنچا تو عوامی لیگ کے ایک عہدیدار نے مجھے چائے پلا کر ٹرخا دِیا اور کہا کہ ’’ شیخ صاحب گھر پر نہیں ہے۔ مجھے نہیں معلوم وہ کب آئیگا؟‘‘
’’مولانا بھاشانی سے جپھی!‘‘
برادران شفقت تنویر مرزا اور اکمل علیمی کے دوست تین پروفیسرز مجھے ڈھاکہ سے 98 کلو میٹر دْور "Tangail" میں ’’ نیشنل عوامی پارٹی‘‘ (چین نواز) کے سربراہ مولانا عبدالحمید خان بھاشانی کی ’’کسان کانفرنس ‘‘میں لے گئے۔ سٹیج پر لے جا کر اْنہوں نے مولانا صاحب سے میرا یہ کہہ کر تعارف کرایا کہ ’’برادرم اثر چوہان۔ ’’تنگائل کانفرنس ‘‘ میں شرکت کے لئے لاہور سے آئے ہیں‘‘۔ مولانا نے مجھے گلے لگا لِیا۔
’’پلٹن میدان میں! ‘‘
18 جنوری1970ء کو ڈھاکہ کے ’’پلٹن میدان‘‘ میں جماعت اسلامی کاجلسہ عام تھا۔ مولانامودودی اور جماعت اِسلامی کے دوسرے قائدین ڈھاکہ میں تھے۔ شیخ مجیب اْلرحمن کی عوامی لیگ کے کارکنوں نے سارے شہر میں دہشت پھیلا رکھی تھی۔ جماعت ِ اسلامی کے مقامی قائدین بنگالی زبان میں تقریریں کر رہے تھے۔ پنجاب میں کئی سال سے مقیم بہاری صحافی، بدر منیر(جو 1961ء میں روزنامہ ’’ ہلالِ پاکستان‘‘ سرگودھا میں میرے ساتھی رہے) مجھے پریس گیلری میں اپنے ساتھ لے گئے۔ اْنہوں نے اپنے ساتھی بنگالی صحافی دوستوں کے ساتھ مجھے اپنی حفاظت میں لے کر میری جان بچائی۔
عوامی لیگ کے مسلح لوگ جلسہ گاہ میں گْھس آئے، اْنہوں نے ہر ٹوپی اور داڑھی والے کو مارنا شروع کردِیا۔ بہت خون خرابہ ہْوا۔ مَیں بچ بچا کر اپنی قیام گاہ (Rocheta Hotel) پہنچ گیا ، مولانا غلام اعظم خان سے ٹیلی فون پر بات کی۔ اْنہوں نے میرے لئے جیپ بھجوا دِی۔ جیپ فوجی تھی اور ڈرائیور بھی فوجی ۔ مَیں مولانا مودودی کی قیام گاہ پر پہنچا تو میری تلاشی لی گئی۔ مولانا صاحب کا چہرہ تمتمایا ہْوا تھا۔ اْنکے انٹرویو کا خلاصہ تھا کہ یہ لوگ (عوامی لیگ والے) پاکستان کو متحد نہیں رکھنا چاہتے تو اْنکی مرضی ، ہم نے تو بہت کوشش کی؟
معزز قارئین! سقوطِ ڈھاکہ کا سب سے بڑا سبب تو یہ تھا کہ ’’ 1970ء کے عام انتخابات میں شیخ مجیب اْلرحمن کی عوامی لیگ قومی اسمبلی میں سب سے بڑی پارٹی بن کر اْبھری تھی اور ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی دوسرے نمبر پر تھی۔ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹرصدر جنرل محمد یحییٰ خان ، شیخ مجیب اْلرحمن کو وزارتِ عظمیٰ کی دعوت دے چکے تھے ، پھر اْن کی نِیت خراب ہوگئی ، دراصل اْن کا بھٹو صاحب سے ’’ بھائی چارا ‘‘ تھا۔ 14 مارچ 1971ء کو کراچی میں جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے بھٹو صاحب نے مطالبہ کِیا کہ ’’ مشرقی پاکستان میں اکثریتی پارٹی ’’ عوامی لیگ ‘‘اور مغربی پاکستان میں دوسری بڑی پارٹی ’’ پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ کو بھی اقتدار منتقل کِیا جائے‘‘۔ بھٹو صاحب کا یہ مطالبہ ’’اْدھر تْم ، اِدھر ہم‘‘ کے نام سے بدنام ہْوا ؟
مشرقی پاکستان میں بغات کے شعلے بھڑک اْٹھے ، وہاں پاک فوج کی گرفت کمزور پڑ گئی تھی۔ جنرل محمد یحییٰ نے 26 مارچ 1970ء کو مْلک بھرمیں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگا دِی ، عوامی لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی کو خلافِ قانون قرار دیدِیا۔ 22 نومبر 1971ء کو بھارتی فوج نے مشرقی پاکستان پر بھرپور حملہ کردِیا۔ عوامی لیگ کی ذیلی تنظیم ’’ مکتی باہنی ‘‘ بھارتی فوج کی سرپرستی اور کمان میں محب وطن پاکستانیوں کا قتلِ عام کر رہی تھی۔ صدر جنرل محمد یحییٰ خان نے 7 دسمبر1971ء کو ’’متحدہ مخلوط پارٹی ‘‘ کے سربراہ مسٹر نورْالامین کو وزیراعظم پاکستان اور ذوالفقار علی بھٹو کو نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ مقرر کردِیا۔ بھٹو صاحب نے عوامی جمہوریہ چین کا دورہ کِیا اور واپسی پر میڈیا کو بتایا کہ ’’ اب دما دَم مَست قلندر ہوگا‘‘۔ پاکستان کے سادہ لوح عوام نے یہ تاثر لِیا کہ امریکہ کا ساتواں بحری بیڑا پاکستان کی مدد کو پہنچنے والا ہے ، لیکن امریکی بحری بیڑا تو نہیں پہنچا لیکن، ہمارا بیڑا ضرور غرق ہوگیا۔
پاکستان دو لخت ہوا تو اسٹیبلشمنٹ نے جناب ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کا ’’سِویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدرِ پاکستان مقرر کردِیا‘‘۔ پھر بھٹو صاحب نے بچے کھچے پاکستان کو ’’ نیا پاکستان‘‘ کا نام دِیا۔ بھٹو صاحب کے بعد مختلف حکمرانوں کا ’’اپنا اپنا پاکستان ‘‘تھا۔ ہر دَور میں مفلوک اْلحال عوام کے ساتھ کیا ہْوا ؟
’’ برصغیر کے تین سیاستدان ! ‘‘
مَیں زیادہ تفصیل میں نہیں جاؤں گا ، صرف اتنا عرض کروں گا کہ ’’ پاکستان کو دولخت کرنے کے ذمہ دار برصغیر کے تین سیاستدان بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی 31 اکتوبر 1984ء کو، بانی بنگلہ دیش شیخ مجیب الرحمن 15 اگست 1975ء کو اور ’’ قائد ِ عوام ‘‘وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو 4 اپریل 1979ء کوغیر فطری موت کا شکار ہوگئے تھے۔
’’ فرمانِ بابا فرید گنج شکر ! ‘‘
معزز قارئین ! میرے ذہن میں توکئی دِن سے چشتیہ سلسلے کے ولی اور پنجابی زبان کے پہلے شاعر بابا فرید اْلدّین مسعود گنج شکر کا یہ شعر گردش کر رہا ہے۔
’’جند ووہٹی، مَرن وَر،
لے جا سی پر نائے
اپن ہتھّی جول کے،
کَیں گل لگّے دھائے‘‘
’’ یعنی۔ ’’ جان۔ دْلہن ہے اور ملک اْلموت۔ دْلہا اور یقینا وہ اْسے بیاہ کر لے جائے گا اور (جسم جو جان کیلئے بمنزلہ باپ کے تھا ) جان کو اپنے ہاتھوں رخصت کر کے (تسلی حاصل کرنے کیلئے ) اب کِس کے گلے لگے گا !‘‘
…………………… (ختم شد)
قائداعظم کا پاکستان دو لخت ہونے سے پہلے
Dec 17, 2023