پاکستان کی سیاست میں اقتدار حاصل کرنے کے لیے ووٹ بنک ہونا ضروری نہیں البتہ پاپولر نظر آنا لازم ہے- پاپولر نظر آنے کے لیے اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی جاتی ہے- میاں نواز شریف پاکستان واپسی سے پہلے لندن میں شیر کی طرح دھاڑے تھے اور سابق جرنیلوں اور ججوں کا نام لے کر دعویٰ کیا تھا کہ جنہوں نے جھوٹے مقدمات بنائے ان کا احتساب ہو گا- اس سیاسی کھڑاک سے اقتدار کے ایوان لرز اٹھے تھے اور خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگی تھیں- گلی محلوں میں مسلم لیگ نون کے کارکن سر اٹھا کر کہنے لگے تھے کہ "میاں ساڈا شیر اے" اس سیاسی کھڑاک کے ساتھ ہی الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر یہ مہم چلائی گئی کہ میاں نواز شریف پاکستان کے چوتھی بار وزیر اعظم بننے کے لیے وطن واپس آرہے ہیں- اس تاثر کے بعد سیاسی سرمایہ کاروں نے اپنی دولت کی بوریوں کے منہ کھول دیئے اور مینار پاکستان کو عوام سے بھر دیا- مسلم لیگ نون اپنے سیاسی عروج کے دور میں بھی مینار پاکستان میں جلسہ کرنے کی جرات نہیں کر سکی تھی- پی پی پی اور تحریک انصاف دو بڑی سیاسی جماعتوں نے مینار پاکستان پر تاریخ ساز عوامی جلسے کیے- مسلم لیگ نون کے کارکن اس توقع پر مینار پاکستان پہنچے کہ ان کا شیر لیڈر لندن کی طرح دھاڑے گا- وی وی آئی پی پروٹوکول کے ساتھ مینار پاکستان پہنچنے سے پہلے میاں نواز شریف کا سافٹ ویئر تبدیل ہوچکا تھا - انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ کسی سے انتقام نہیں لیں گے قومی مسائل اتفاق رائے سے ہی حل کیے جا سکتے ہیں- ایسا اتفاق رائے ضروری ہیجس میں سٹیک ہولڈرز اور ریاستی ادارے شامل ہوں- احمد فراز یاد آتے ہیں-
یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے
کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں
مینار پاکستان کے جلسے کے بعد میاں نواز شریف محتاط رہے کیونکہ انکے خلاف مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت تھے- عدالتوں نے میاں نواز شریف کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس اور العزیزیہ کیس دونوں ختم کر دیئے ہیں جو شریف فیملی اور مسلم لیگ نون کے کارکنوں کیلئے مسرت کی بات ہے- ان مقدمات سے بری ہونے کے بعد اب بظاھر میاں نواز شریف انتخابات لڑنے کے اہل ہو گئے ہیں- البتہ تحریک انصاف کے ذرائع کیمطابق جب میاں نواز شریف انتخاب لڑنے کیلئے کاغذات نامزدگی داخل کریں گے تو ان کا مخالف امیدوار ان کے کاغذات پر اعتراض کریگا کہ سپریم کورٹ نے میاں نواز شریف کو پانامہ کیس میں تاحیات نا اہل قرار دے رکھا ہے اس لیے وہ انتخابات لڑنے کے اہل نہیں ہیں- میاں نواز شریف کا وکیل موقف پیش کرے گا کہ حکومت نے قانون سازی کرکے نا اہلی کی مدت پانچ سال کر دی ہے- ریٹرننگ افسر ان کے کاغذات منظور کر لے گا- جس کے خلاف اپیل ہوگی اور حتمی فیصلہ لاہور ہائی کورٹ کے تین ججوں پر مشتمل بنچ کرے گا-بقول علامہ اقبال
اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم
مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں
مقدمات سے بری ہونے کے بعد میاں نواز شریف نے اپنا بیانیہ ایک بار پھر تبدیل کر لیا ہے- انہوں نے پارلیمانی بورڈ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ 2017ء کے واقعات میں ملوث افراد کا احتساب کیا جائیگا- ان کو بتانا ہوگا کہ مجھے کیوں نکالا- میاں نواز شریف نے اپنے تازہ بیان میں سوال اٹھایا ہے کہ انہیں اگر لاڈلے کو لانے کیلئے جھوٹے مقدمات میں سزا دینا ضروری تھا تو پاکستان اور عوام کو کس جرم کی سزا دی گئی - پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ" لاڈلے" بدلتے رہتے ہیں - مسلم لیگ نون کا انتخابی نشان چونکہ شیر ہے اور میاں نواز شریف کے انتخابی جلسوں کا شیڈول تیار ہو رہا ہے اس لیے ان کو اپنے انتخابی نشان کی مناسبت سے دلیرانہ اور شیرانہ نوعیت کے انتخابی بیانیے کی تلاش ہے-پانی پت کی سیاسی انتخابی جنگ پنجاب کے میدان میں لڑی جاتی ہے- پاکستان اور پنجاب کی مقبول ترین جماعت تحریک انصاف تا حال میدان میں موجود نہیں ہے- سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلم لیگ نون کے لیڈر کس کیخلاف انتخاب لڑیں گے- کیا آزاد امیدواروں کے نام پر ڈمی امیدوار کھڑے کیے جائیں گے- عمران خان کے سیاسی تجربے کے بعد پاکستان کی سیاست مکمل طور پر برہنہ ہو چکی ہے- کون یقین سے کہ سکتا ہے کہ کون کس کے ساتھ ہے- پاکستان کے سیاسی لیڈروں کو گزشتہ پانچ سال کے سیاسی تجربے سے سبق سیکھنا چاہیے - میاں نواز شریف کو ایسے افراد سے ہوشیار رہنا چاہیے جو انہیں مزاحمتی بیانیے پر اکسا رہے ہیں- قابل فخر و احترام دوست افتخار عارف کے بقول -
میں نے ایک اور بھی محفل میں انہیں دیکھا ہے
یہ جو تیرے نظر آتے ہیں یہ سب تیرے نہیں
یہ بہ ہر لحظہ نئی دھن پہ تھرکتے ہوئے لوگ
کون جانے کہ یہ کب تیرے ہیں کب تیرے نہیں
پی پی پی کے نوجوان قائد بلاول بھٹو میاں نواز شریف پر ہلکے پھلکے سیاسی وار کر رہے ہیں- انہوں نے اپنے ایک خطاب میں کہا ہے کہ میاں نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم" سلیکٹ" ہونے جا رہے ہیں- سیاسی لیڈر ایک دوسرے پر انتخابات ملتوی کرانے کے الزامات عائد کر رہے ہیں- سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے الیکشن کمیشن کی پٹیشن پر فوری سماعت کرکے لاہور ہائی کورٹ کا حکم معطل کر دیا ہے اور الیکشن کمیشن کو انتخابی شیڈول جاری کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ اس حکم پر عمل بھی ہو چکا ہے اور اب بظاھر انتخابات ملتوی ہونے کی افواہیں دم توڑ چکی ہیں اور قوی توقع کی جا سکتی ہے کہ انتخابات 8 فروری کو ہو جائینگے- سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کے وکیل عمیر نیازی کو توہین عدالت کا نوٹس بھی جاری کر دیا ہے جس نے بادی النظر میں لاہور ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کرکے انتخابات ملتوی کرانے کی کوشش کی تھی اگر سپریم کورٹ فوری فیصلہ نہ کرتی تو الیکشن کمیشن کیلئے آئین و قانون کے مطابق 8 فروری کو انتخابات کرانا ممکن نہ ہوتا- پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کے کلیدی نوعیت کے فیصلے پاکستان سے باہر ہوتے ہیں- امریکہ اور برطانیہ آج بھی اگلے پانچ سال کی سیاسی اور معاشی منصوبہ بندی کرتے ہیں- ایک ذرائع کے مطابق میاں نواز شریف وزیر اعظم کی بجائے آصف زرداری کی طرح صدر پاکستان بننا پسند کریں گے- دیکھتے ہیں 2024ء کا سال پاکستان اور عوام کے لیے کیسا ثابت ہوتا ہے-