سپریم کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بنچ نے ریٹرننگ اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران کے حوالے سے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو آئندہ سال 8 فروری کے طے شدہ انتخابات کا شیڈول جاری کرنے کا حکم صادر کردیا۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے فاضل عدالت عظمیٰ کے ان احکامات کے بعد چیف جسٹس سپریم کورٹ سے ملاقات کی اور آٹھ فروری کے انتخابات کا شیڈول جاری کر دیا جس کے مطابق رواں ماہ 20 سے 22 دسمبر تک امیدواروں سے کاغذات نامزدگی وصول کئے جائیں گے اور آئندہ ماہ 13 جنوری کو انتخابی نشان الاٹ ہونگے۔
گزشتہ ہفتے پی ٹی آئی کے ایک وکیل عمیر نیازی نے لاہور ہائیکورٹ میں رٹ درخواست دائر کی جس کے ذریعے الیکشن کمیشن کی جانب سے آٹھ فروری کے انتخابات کیلئے سول انتظامیہ میں سے ریٹرننگ اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران کا تقرر کرنے کے فیصلہ کو چیلنج کیا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے فاضل جج نے اس رٹ درخواست کی فوری طور پر سماعت کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو سنے بغیر ہی ریٹرننگ افسروں کے تقرر سے متعلق اس کا فیصلہ معطل کر دیا جس کی بنیاد پر الیکشن کمیشن نے تعینات شدہ انتخابی عملہ کی ٹریننگ روک دی چنانچہ اس بات کا خدشہ لاحق ہو گیا کہ اگر 15 دسمبر کو انتخابات کا شیڈول جاری نہ ہو سکا تو آٹھ فروری کو انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں رہے گا۔ اس سے ملک میں آٹھ فروری کے انتخابات کے التواء کی افواہیں تیزی سے گردش کرنے لگیں جبکہ الیکشن کمیشن نے گزشتہ روز ہی لاہور ہائیکورٹ کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست برائے اپیل دائر کی اور چیف جسٹس سپریم کورٹ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بنچ نے اسی روز اسکی سماعت کی اور لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو فوری طور پر انتخابات کا شیڈول جاری کرنے کا حکم دے دیا۔
دوران سماعت فاضل چیف جسٹس مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ لاہور ہائیکورٹ کے فاضل جج نے عجلت میں اپنی حدود سے بڑھ کر جلد بازی کرتے ہوئے فیصلہ دیا ہے جبکہ صدر مملکت اور الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں عام انتخابات کیلئے آٹھ فروری کی تاریخ مقرر کی تھی۔ فاضل چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عمیر نیازی کی جانب سے الیکشن کمیشن کے اقدام کیخلاف درخواست دائر کرنے اور ہائیکورٹ کے فاضل جج کی جانب سے اس درخواست کی فوری سماعت کرکے الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرنے سے آٹھ فروری کے انتخابات ملتوی ہونے کی افواہوں کو تقویت ملی ہے اور یہ اقدام توہین عدالت کے زمرے میں بھی آتا ہے۔ فاضل چیف جسٹس نے باور کرایا کہ کسی کو جمہوریت ڈی ریل کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ عدالت عظمیٰ کے فاضل بنچ نے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کرنے والے پی ٹی آئی کے وکیل عمیر نیازی کو اظہار وجوہ کے نوٹس بھی جاری کر دیئے کہ کیوں نہ ان کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی عمل میں لائی جائے۔
قومی اسمبلی کی قبل ازوقت تحلیل کی بنیاد پر آئین کے تقاضے کے تحت تو اسکے انتخابات تین ماہ کے اندر اندر ہونے تھے جو نومبر 2023ء میں منعقد ہوتے تاہم نئی مردم شماری کی مشترکہ مفادات کونسل کی جانب سے توثیق کے بعد الیکشن کمیشن کیلئے ازسرنو حلقہ بندیاں کرنا بھی لازمی آئینی تقاضا بن گیا جبکہ نگران حکومت کی جانب سے قومی اور تمام صوبائی اسمبلیوں کے ایک ہی روز عام انتخابات کا عندیہ دیا گیا۔ اس وقت بھی یہ افواہیں زیرگردش رہیں کہ نگران سیٹ اپ کو ملک میں اقتصادی استحکام لانے اور آئی ایم ایف کے عبوری بیل آئوٹ معاہدے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا ایجنڈا دیا گیا ہے جس کی بنیاد پر نگران سیٹ اپ دو ماہ کی بجائے زیادہ عرصے کیلئے چلے گا اور انتخابات کا انعقاد موخر ہو جائیگا۔ اسی تناظر میں بالخصوص پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی کی جانب سے تواتر کے ساتھ انتخابات آئین کے تقاضے کے مطابق تین ماہ کے اندر اندر کرانے کا تقاضا کیا جانے لگا اور پی ٹی آئی نے اس کیلئے سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا جس میں استدعا کی گئی کہ صدر مملکت کو آئین کے تحت انتخابات کی تاریخ کے تعین کی ہدایت کی جائے۔ اس حوالے سے دائر ہونیوالی متعدد درخواستوں کی سماعت کے بعد چیف جسٹس سپریم کورٹ نے متعلقہ بنچ کی سربراہی کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں اور الیکشن کمیشن کا موقف بھی سنا اور صدر مملکت کو ہدایت کی کہ وہ الیکشن کمیشن سے مشاورت کرکے انتخابات کی تاریخ کا تعین کریں۔ چنانچہ عدالت عظمیٰ کے ان احکام کی روشنی میں چیف الیکشن کمشنر نے ایوان صدر میں صدر مملکت سے ملاقات کی جس کے بعد باہمی اتفاق رائے سے انتخابات کیلئے 8 فروری 2024ء کی تاریخ مقرر کر دی گئی۔ فاضل چیف جسٹس سپریم کورٹ نے اس تاریخ کو انتخابات کے انعقاد کیلئے پتھر پر لکیر قرار دیا اور کہا کہ اس تاریخ کو ہرصورت انتخابات ہونگے۔ الیکشن کمیشن نے اسکی روشنی میں انتخابات کی تیاریاں بھی شروع کر دیں اور نومبر کے تیسرے ہفتے نئی حلقہ بندیوں کا کام بھی مکمل ہو گیا۔ تاہم اسی دوران بعض حلقوں کی جانب سے 8 فروری کے انتخابات پر شکوک و شبہات کا اظہار ہونے لگا اور بطور خاص پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی جانب سے دہشت گردی کے خطرات کے تناظر میں انتخابات ملتوی کرنے کا تقاضا بھی کر دیا گیا۔ اسی طرح پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کے بعض حلقوں کی جانب سے بھی انتخابات کے التواء کیلئے نیم رضامندی کا اظہار ہونے لگا۔ اسی فضا میں پی ٹی آئی کے ایک وکیل نے لاہور ہائیکورٹ میں رٹ درخواست دائر کرکے ریٹرننگ افسروں کے تقرر سے متعلق الیکشن کمیشن کے اقدام کو چیلنج کیا اور لاہور ہائیکورٹ کے فاضل جج نے جس سرعت کے ساتھ متعلقہ دائر کردہ درخواست کی سماعت کرکے الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کیا، اس سے بادی النظر میں یہی محسوس ہونے لگا کہ مقتدر حلقوں کی جانب سے 8 فروری کے انتخابات آگے لے جانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ اس سے ملک میں قیاس اور غیریقینی کی فضا عود کر آئی تو جمہوریت کو بھی ماضی جیسے خطرات لاحق ہوتے نظر آئے۔
اب سپریم کورٹ نے پاکستان الیکشن کمیشن کی درخواست پر لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرکے آٹھ فروری کو انتخابات کا انعقاد پتھر پر لکیر ہونے کا دوبارہ عندیہ دیا ہے جس کی روشنی میں الیکشن کمیشن نے انتخابات کا شیڈول بھی جاری کر دیا ہے تو اس سے اب انتخابات کے التواء کے معاملہ میں تمام سازشی تھیوریاں ازخود ہی ختم ہوجانی چاہئیں اور انتخابات کے انعقاد پر اب سیاسی قیادتوں سمیت کسی کی بھی جانب سے مزید شک و شبہ کی گنجائش ہرگز نہیں نکالی جانی چاہیے۔ سیاسی جماعتیں اب اپنی ساری توجہ 8 فروری کے انتخابات پر مرکوز کریں اور اپنے اپنے پارٹی منشور کے ساتھ انتخابی میدان میں اتریں۔ یقیناً انتخابی عمل کے تسلسل سے ہی جمہوریت کی گاڑی بغیر کسی تعطل کے ٹریک پر رہ سکتی ہے۔
آٹھ فروری کے انتخابات پتھر پر لکیر
Dec 17, 2023