’’دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو ‘‘

کھیلوں کی دنیا میں کوچنگ ایک نہایت اہم ذمہ داری ہے کوچ کا کام ایک جوہری جیسا ہے۔کوچ بھی ٹیم کے چھپے ہوئے جواہر کو اجاگر کرتا ہے اور اس کی ’’چمک دمک‘‘ بڑھانے میں ممد و معاون ثابت ہوتا ہے۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن کی ایگزیکٹو کونسل کے اجلاس میں قومی ٹیم کے سابق گول کیپر اولمپیئن شاہد علی خان کو سینئر ٹیم کا چیف کوچ مقرر کیا گیا۔ صدر پی ایچ ایف قاسم ضیاء کے مطابق بڑے غور و خوض اور مشاورت کے بعد متفقہ طور پر یہ ذمہ داریاں شاہد علی خان کو تفویض کی گئی ہیں۔ شاہد علی خان دسمبر 1964ء کو عروس البلاد کراچی میں پیدا ہوئے، نوعمری میں ہاکی سے جو تعلق استوار ہوا وہ تاحال قائم ہے۔ سکول کالج میں ہاکی کھیلی، کارکردگی نمایاں رہی، پاکستان کی جونیئر ٹیم میں شامل ہوئے، کپتانی بھی کی۔ ایک طویل عرصہ تک پی آئی اے کی نمائندگی کی، 1981ء میں سینئر ٹیم کے لئے انتخاب ہوا۔
1986ء سے 1990ء تک ٹیم میں آنیاں جانیاں ہوتی رہیں۔ 1991ء سے 1993ء تک ٹیم کے مستقل رکن کی حیثیت سے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے۔ اولمپک مقابلوں میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ پاکستان کی جانب سے کھیلتے ہوئے 23 میڈلز (8 گولڈ، 10 سلور اور 5 برونز) حاصل کئے۔ بطور گول کیپر مین آف دی ٹورنامنٹ کے اعزاز سے سرفراز ہوئے۔ صدر مملکت نے انہیں صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا۔ پی آئی اے کی ٹیم کے کوچ بھی رہے۔
پاکستان کے کشور حسین، ذاکر حسین، سلیم شیروانی اور شاہد علی خان کا شمار بہترین گول کیپرز میں ہوتا ہے۔ مخالف ٹیموں کے تمام حربے ان کے مضبوط دفاع کے سامنے ناکام و نامراد ہو جاتے تھے۔ توقع ہے کہ شاہد علی خان نئی ذمہ داری کو خوش اسلوبی سے پورا کریں گے۔ پاکستان ٹیم کو اس سنہری دور میں واپس لے آئیں گے جب میڈلز اس کی جانب کھنچے چلے آتے تھے۔
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو

ای پیپر دی نیشن