پاکستان کی ہیلتھ پالیسی

Feb 17, 2009

سفیر یاؤ جنگ
مکرمی ! پاکستان کا قیام ایک نظریہ کے تحت عمل میں آیا لیکن کچھ سیاسی قائدین نے عملی طور پر اس نظریہ سے انحراف کیا اور اس نظریہ کے تحت کوئی ایسی پالیسی تیار نہ کی جس سے ملک کا کوئی بھی شعبہ درست طور پر کام کر سکے اور اقوام کو سکون کے ساتھ زندگی بسر کرنا تو درکنار قدم قدم پر رکاوٹیں ملنے میں آئیں۔ ایسا ہی شعبہ صحت خرابیوں کا مرکز بن گیا‘ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر صاحبان جن کو قوم اپنا ’’مسیحا‘‘ سمجھتی تھی جب کوئی مریض اس ڈاکٹر کے سامنے اپنی بیماری کو دکھ سمجھ کر پیش کرتا ہے تو ڈاکٹر اپنے آپ کو ’’بیورو کریٹ‘‘ سمجھ کر نفرت کا اظہار کرتا ہے اور اس کو اپنے ’’ذاتی کلینک‘‘ کا پتہ نوٹ کراتا ہے کیونکہ قوم کے مسیحا کے دماغ میں حصول دولت کا نشہ قبضہ کرگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قوم کا مسیحا میڈیکل کالج سے فارغ ہوتے ہی محکمہ پولیس یا کسٹم میں ملازمت کی تلاش میں گھومتا نظر آتا ہے تاکہ وہ بھی راتوں رات ملک کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہو سکے۔ اگر کسی ڈاکٹر کو مجبوراً کسی ہسپتال میں چند روز سروس کرنا پڑتی ہے تو وہ انسانوں کا مسیحا بننے کی بجائے ان کو مجبوراً ڈیل کرتا ہے نہ کہ خدا کو خوش کرنے کی خاطر ڈیوٹی سرانجام دیتا ہے۔حکومت پاکستان سے اپیل ہے کہ جب تک آپ اس ملک میں ’’صحت پالیسی‘‘ کو درست نہیں کریں گے اس وقت تک اس ملک کے عوام کی صحت زیادہ خرابی کا شکار ہوگی۔ سب سے پہلے پرائیویٹ کلینک کھولنے پر پابندی لگائی جائے یعنی یہ کہ جب تک ملازمت میں ہو کوئی ڈاکٹر پرائیویٹ پریکٹس نہیں کر سکتا‘ دوسرے ڈاکٹر کی تنخواہ لاکھوں ڈالر کر دی جائے لیکن اس ملک کے ڈاکٹر کو ’’بیورو کریٹ‘‘ یعنی گیزٹیڈ آفیسر نہ بنایا جائے، یہی وجہ ہے کہ بیمار لوگوں کا تناسب پہلے سے بہت زیادہ ہوگیا اگر یہ افسر نہ ہوں گے تو بطور ’’مسیحا‘‘ یہ لوگ جس کو بھی دوا تجویز کریں گے اللہ تعالیٰ اس کو ضرور شفا دے گا۔ جب تک یہ نہ ہوگا عوام تو پریشانی پہلے ہی ہیں ڈاکٹر طبقہ کو بھی سکون نہیں ملے گا۔(رانا صفدر حسین‘ جنرل سیکرٹری ’’دی پیس‘‘ ویلفئیر سوسائٹی رجسٹرڈ‘ 103/1 تجمل پارک‘ علامہ اقبال روڈ برگنزا کالونی گڑھی شاہو لاہور فون 0303.4499215)
مزیدخبریں