1947کے یوم آزادی سے لے کر گزشتہ 63برسوں میں اس ملک اور قوم پر جو کچھ بیتی اس کے دہرانے کی چنداں کی ضرورت نہیں ہے۔ خدا وند ذوالجلال کے بے انتہاءکرم قائداعظم محمد علی جناح کی عظیم قیادت اور مسلمانان برصغیر کی بے مثال قربانیوں کے بعد اللہ تعالی نے عالم اسلام کو مملکت خداد پاکستان کی صورت میں ایک عظیم تجربہ گاہ قائم کرنے کا موقع عطاءفرمایا۔ جہاں بیسویں صدی کی لادین مادہ پرست دنیا کے سامنے ایک جدید اسلامی جمہوری فلاحی مملکت کا رول ماڈل پیش کیا جا سکے ۔ ہمارے سیاسی فوجی اور طرح طرح کے نمائشی القابات رکھنے والے لیڈران نے بانی قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناح کے تاثرات کا جو حشر نشر کیا ہے وہ آج سب کے سامنے ہے۔ بہت سے بزرگوںکو گزشتہ چند ہفتوں کے دوران یہ ارشاد فرماتے اپنے کانوں سے سنا ہے کہ \\\"ماضی پر مٹی ڈالیں اور مستقل کی فکر کریں\\\"۔ سو عرض ہے کہ ماضی میں تو میںیہی سنتا آیا ہوں قدم بڑھاﺅ جنرل ایوب ہم تمہارے ساتھ ہیں، قدم بڑھاﺅ یحییٰ خان ہم تمہارے ساتھ ہیں، قدم بڑھاﺅ قائد عوام )وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو) اور اس کے بعد مرد مومن مرد حق ضیاءالحق قدم بڑھاﺅ ہم تمہارے ساتھ ہیں، پھر یہی نعرہ عوام وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ قدم بڑھاﺅ بے نظیرقوم کی زنجیر ہم تمہارے ساتھ ہیں اور بالآخر قدم بڑھاﺅ نواز شریف کے نعرہ نے ماضی کے نعروں کی جگہ لے لی۔ پھر خاموشی چھا گئی اور اچانک کل رات میں نے ٹی وی سکرین پر مختلف شہروں کے وکلاءکے یہ نعرے سنے \\\"چیف قدم بڑھاﺅ ہم تمہارے ساتھ ہیں\\\"وکلاءکی مرادبتلانے کی ضرورت نہیں صاف ظاہر ہے۔
یا الہیٰ یہ ماجرہ کیاہے؟ٹی وی چینلز پر ایک ہنگامہ برپا ہے ۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما سڑکوں پر نکل آنے کی کال دے رہے ہیں ۔ افواہ ساز فیکٹریاں جنگل کی آگ کی طرح ایمرجنسی کے نفاذ کی خبریں جلتی پر پٹرول ڈالنے کا کام کررہی ہیں ۔آخر کچھ تو ہے جس کی تیاری ہے کہ ایک طرف تمام شب ایون صدر میں اعلی سطح اجلاس جاری رہے ، دوسری طرف عالی مقام قابل صد احترام چیف جسٹس آف پاکستان نے تمام مختلف صوبوں میں سپریم کورٹ کے اہم بینچوں پر فرائض دینے والے فاضل جج صاحبان کو پیر کے روز عدالت عالیہ اسلام آباد میں حاضر ہونے کے احکام صادر فرمائے ہیں۔ ریاست کے اعلی ترین دو ستونوں یعنی عدلیہ اور انتظامیہ کے سربراہوں کے درمیان اس نوعیت کی صف بندی کوئی نیک شگون نہیں ہے۔
چھوٹا منہ اور بڑی بات ہے اور یہ نا چیز سپریم کورٹ میں بعض معزز جج صاحبان کی صدر مملکت کی طرف سے تعیناتی اور فاضل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کی طرف سے متعلقہ صدارتی احکامات کو سسپنڈکرتے ہوئے موجودہ صورت حال کے بارے میں Stay Orderایشو کرنے پر جو امکانی صورت حال پیدا ہوئی ہے یہ خاکسار اس ایشو کو ایک سنگین آئینی بحران قرار دینے سے گریز کرتے ہوئے بعض آئینی معاملات کی ترجمانی میں ایک طرف صدر اور دوسری طرف وزیراعظم اور صدر کے درمیان اعلی عدلیہ کی تعیناتی یا اس کے متعلقہ مشورات کے بارے میں اگر موجودہ تنازع کی بنیاد بن گئے ہیں تو اس آئینی اختلاف کو کسی ممکنہ طوفان کے آنکھ بنانے سے ریاست کے ہر دو اہم ستونوں کو ریاست کی امارت میں مزید دراڑیں ڈالنے سے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ سپریم کورٹ نے اگلی جمعرات 18فروری کو حکومت کے نمائندو ں کو اپنا موقف بیان کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں طلب کرلیا ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ سینئر جج صاحبان کی خالی سیٹوں پر تعیناتی اور اس بارے میں عزت مآب چیف جسٹس کے مشورات جسے موجودہ اختلافی امور کا سپریم کورٹ آئین کی ترجمانی کرتے ہوئے فیصلہ صادر فرمادے گی، جس کا باقی تمام اداروں کو احترام کرنا لازم ہے ، نہ صرف یہ بلکہ سینئر میاں رضا ربانی کی صدارت میں جو آئینی رفورم پیکج اٹھارویں ترمیم کے ڈرافٹ کی صورت میں آج کل زیر غور ہے ،اس کو بھی سپریم کورٹ کے تازہ فیصلے کے بعد مستقبل کے لئے آئین میں شامل کر لینے کا موقع مل جائے گا۔ تاکہ قوم مستقبل میں یا آئندہ کے لئے ایسی غلط فہمیوں کا شکار نہ ہو جس سے ایسی بحرانی کیفیت پیدا ہو جس کا گزشتہ دو روز سے نہ صرف پوری قوم بلکہ پوری دنیا ہمارے جمہوری نظام کو کامیابی سے چلانے کے بارے میں شک و شبہات کا شکار ہو کر اپنی سیاسی اور فوجی قیادت ایسی ہر سازش کو ناکام بنا نے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
یا الہیٰ یہ ماجرہ کیاہے؟ٹی وی چینلز پر ایک ہنگامہ برپا ہے ۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما سڑکوں پر نکل آنے کی کال دے رہے ہیں ۔ افواہ ساز فیکٹریاں جنگل کی آگ کی طرح ایمرجنسی کے نفاذ کی خبریں جلتی پر پٹرول ڈالنے کا کام کررہی ہیں ۔آخر کچھ تو ہے جس کی تیاری ہے کہ ایک طرف تمام شب ایون صدر میں اعلی سطح اجلاس جاری رہے ، دوسری طرف عالی مقام قابل صد احترام چیف جسٹس آف پاکستان نے تمام مختلف صوبوں میں سپریم کورٹ کے اہم بینچوں پر فرائض دینے والے فاضل جج صاحبان کو پیر کے روز عدالت عالیہ اسلام آباد میں حاضر ہونے کے احکام صادر فرمائے ہیں۔ ریاست کے اعلی ترین دو ستونوں یعنی عدلیہ اور انتظامیہ کے سربراہوں کے درمیان اس نوعیت کی صف بندی کوئی نیک شگون نہیں ہے۔
چھوٹا منہ اور بڑی بات ہے اور یہ نا چیز سپریم کورٹ میں بعض معزز جج صاحبان کی صدر مملکت کی طرف سے تعیناتی اور فاضل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کی طرف سے متعلقہ صدارتی احکامات کو سسپنڈکرتے ہوئے موجودہ صورت حال کے بارے میں Stay Orderایشو کرنے پر جو امکانی صورت حال پیدا ہوئی ہے یہ خاکسار اس ایشو کو ایک سنگین آئینی بحران قرار دینے سے گریز کرتے ہوئے بعض آئینی معاملات کی ترجمانی میں ایک طرف صدر اور دوسری طرف وزیراعظم اور صدر کے درمیان اعلی عدلیہ کی تعیناتی یا اس کے متعلقہ مشورات کے بارے میں اگر موجودہ تنازع کی بنیاد بن گئے ہیں تو اس آئینی اختلاف کو کسی ممکنہ طوفان کے آنکھ بنانے سے ریاست کے ہر دو اہم ستونوں کو ریاست کی امارت میں مزید دراڑیں ڈالنے سے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ سپریم کورٹ نے اگلی جمعرات 18فروری کو حکومت کے نمائندو ں کو اپنا موقف بیان کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں طلب کرلیا ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ سینئر جج صاحبان کی خالی سیٹوں پر تعیناتی اور اس بارے میں عزت مآب چیف جسٹس کے مشورات جسے موجودہ اختلافی امور کا سپریم کورٹ آئین کی ترجمانی کرتے ہوئے فیصلہ صادر فرمادے گی، جس کا باقی تمام اداروں کو احترام کرنا لازم ہے ، نہ صرف یہ بلکہ سینئر میاں رضا ربانی کی صدارت میں جو آئینی رفورم پیکج اٹھارویں ترمیم کے ڈرافٹ کی صورت میں آج کل زیر غور ہے ،اس کو بھی سپریم کورٹ کے تازہ فیصلے کے بعد مستقبل کے لئے آئین میں شامل کر لینے کا موقع مل جائے گا۔ تاکہ قوم مستقبل میں یا آئندہ کے لئے ایسی غلط فہمیوں کا شکار نہ ہو جس سے ایسی بحرانی کیفیت پیدا ہو جس کا گزشتہ دو روز سے نہ صرف پوری قوم بلکہ پوری دنیا ہمارے جمہوری نظام کو کامیابی سے چلانے کے بارے میں شک و شبہات کا شکار ہو کر اپنی سیاسی اور فوجی قیادت ایسی ہر سازش کو ناکام بنا نے کی صلاحیت رکھتی ہے۔