14سالہ جوناتھن اور19سالہ شاہ رخ جتوئی

Feb 17, 2013


جی ہاں امریکہ بہت برا ہے۔ وہاں ہر شے غلط ہے۔ اخلاقیات، سیاست، تعلیم، صحت، تفریح، آمدورفت لیکن وہاں سے آنے والی خبریں ایک اور ہی تاثر کا اظہار کرتی ہیں۔ تازہ ترین معاملہ لے لیجئے 14سالہ جوناتھن نے اپنی 7ماہ کی شیرخوار بہن کو قتل کر دیا۔ اب وہاں پولیس نے اعلان کیا ہے جوناتھن پر فرسٹ ڈگری کے قتل کا مقدمہ درج کیا گیا ہے جس کے بعد اس کی ضمانت بھی نہیں ہو سکتی۔ پولیس کے مطابق جوناتھن کی والدہ گلوریانز رات ساڑھے دس بجے کام پر گئیں۔ گھر پر جوناتھن اور 7ماہ کی لاریسا ہانز موجود تھے۔ جوناتھن نے بچی کو مارا جس کی وجہ سے وہ رونے لگی جوناتھن نے اسے چپ کرانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ پھر اس نے اپنے ہاتھ سے شیر خوار بہن کی ناک اور منہ بند کر دیا۔ کافی دیر بعد جب بچی چپ ہو گئی تو اسی نے اسے جھولے میں ڈال دیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ 14سالہ جوناتھن نے 7ماہ کی بچی کو ارادتاً ہلاک کیا ہے اس لئے اسے بالغ تصور کرتے ہوئے مقدمہ چلایا جائے گا۔ ایک طرف امریکہ اس کی پولیس اور نظام عدل ہے جہاں یہ واضح ہو جانے پر کہ قتل جان بوجھ کر کیا گیا ہے نابالغ کو بھی بالغ تصور کر کے اس جرم قبیح کا مقدمہ قتل درج ہوا ہے جو ناقابل ضمانت ہے۔ دوسری طرف کراچی کی پولیس یہاں کا پولیس سرجن ہے جس نے 19سال 2ماہ کے شاہ رخ جتوئی کو 17برس کا ظاہر کر دیا تھا حالانکہ اوسط درجے کی قابلیت رکھنے والا پولیس افسر یا ڈاکٹر بھی ایچی سن کالج میں جہاں شاہ رخ زیرتعلیم رہا ہے داخلے کے وقت جمع کرائے گئے کاغذات، اس کے والد سکندر جتوئی کے قومی شناختی کارڈ کے ب فارم پر درج اس کی تاریخ پیدائش اور پاسپورٹ پر موجود کوائف سے لمحوں میں آگاہ ہوسکتا تھا کہ اس کی عمر کیا ہے ۔
سعودی عرب اور عرب امارات میں قانون دیت کی موجودگی اور قتل کا بدلہ قتل جیسی سخت سزا نے وہاں جرائم کی شرح کو نہ ہونے کے برابر کر رکھا ہے۔ اسی ہفتے کی خبر ہے کہ شارجہ میں مصری خاتون کو قتل کرنے والے 17بھارتی شہریوں کو 3برس بعد آٹھ کروڑ روپے دیت کی ادائیگی کے بعد رہائی ملی ان میں سے 16کا تعلق مشرقی پنجاب اور ایک کا ہریانہ سے ہے۔ انہوں 2010ءمیں مصری خان کی جان لی تھی جس کے بعد مقدمہ چلایا اور 28مارچ 2010ءکو متحدہ عرب امارات کی ذیلی عدالت نے سزائے موت سنائی۔ ایک بھارتی این جی او ”اوبرائے“ نے اس مقدمہ کی پیروی کی تھی اور اوبرائے ہی نے مصری خان کے لواحقین کو دیت کی رقم ادا کی ہے۔ جس کے باعث کرائم ریٹ زیرو آ جاتا ہے۔
آج کراچی میں یومیہ درجن بھر لاشیں گرنا معمول کی بات ہے۔ رات گئے نیوز ایجنسیاں اور اخبارات کے کرائم رپورٹر دن بھر کا ”اسکور“ دیتے ہیں کہ ان علاقوں میں اتنے افراد مارے گئے۔ شہر نگاراں اور راتوں کو جاگنے والے شہر میں جب خوف و دہشت کی فضا ایسی ہو کہ شادی ہالوں کی رونقیں ماند پڑ جائیں بزنس روڈ، بوٹ بیسن، بہادر آباد، دھورا جی اور گلشن چورنگی و حیدر بھائی کی فوڈ اسٹریٹس پر سناٹا دکھائی دے تو اس معاشی حب اور کمرشل کیپیٹل کا مستقبل تاریک ہی کہا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں زیردستوں اور بالادستوں سے نرمی آج کا معاملہ نہیں۔ 16فروری 53ءکا ایک تاریخی واقعہ بھی ممتاز محقق عقیل عباس جعفری کی تصنیف ”پاکستان کرونیکل“ کے صفحہ 80 پر موجود ہے؛۔ یہ بیگم جونا گڑھ منور جہاں پر چلنے والے مقدمہ قتل کا فیصلہ ہے۔ 16فروری 53ءکو سندھ چیف کورٹ کے جج جسٹس محمد بچل نے جیوری کی متفقہ رائے سے اتفاق کرتے ہوئے نواب آف جونا گڑھ کی اہلیہ بیگم منور جہاں کو ان کی ملازمہ بانو کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا تھا۔ 13سالہ بانو بیگم جونا گڑھ کے محل میں ملازم تھی۔ 22 جنوری 1952کو بیگم صاحبہ نے اس کے کسی فعل سے ناراض ہو کر اپنی خادمہ اللہ رکھی سے اتنا پٹوایا کہ اس معصوم کی جان نکل گئی۔ بیگم جونا گڑھ نے راتوں رات بانو کی لاش قبرستان میں دفن کرا دی مگر بانو کے لواحقین اس قتل پر خاموش نہ بیٹھے۔ ان کے شور مچانے پر بانو کے قتل کی تحقیقات ہوئی۔ بیگم جونا گڑھ سمیت کئی ملازمین کو حراست میں لیا گیا۔ یہ مقدمہ قریباً ایک برس چلا۔ مقدمے کی سماعت کے دوران جیوری اس نتیجے پر پہنچی کہ بانو کا قتل بیگم جونا گڑھ نے خود تو نہیں کیا مگر وہ اس جرم کی محرکہ تھیں۔ اس لئے وہ سزا کی مستحق ہیں لیکن چونکہ وہ ایک اعلیٰ سماجی رتبے کی حامل ہیں اس لئے وہ جتنا عرصہ قید میں گزار چکی ہیں اور ان کی جتنی بدنامی ہو چکی ہے وہی ان کی سزا ہے۔ اب انہیں تابہ درخواست عدالت قید کی سزا دے کر رہا کر دیا جائے۔
ایسا ہی ایک مقدمہ اداکارہ شبنم کے گھر پر ڈکیتی کا تھا۔ یہ واردات 13-12مئی 1978ءکی درمیانی شب لاہور میں ہوئی جہاں چند مسلح نوجوانوں نے لوٹ مار کے بعد شبنم کے بیٹے روفی کو یرغمال بنا کر اس سے زیادتی بھی کی۔ واردات کی تفتیش کے دوران انکشاف ہوا کہ اداکارہ زمرد کے گھر پر بھی ایسا ہی کیس ہوا تھا۔ پولیس نے شبنم کے معاملے کو اٹھانے پر ملزمان کو گرفتار کیا۔ ملزمان میں فاروق بندیال، وسیم یعقوب بٹ، طاہر تنویر بھنڈر جمیل احمد چٹھہ اور جمشید اکبر ساہی شامل تھے۔ جنہیں فوجی عدالت نے سزائے موت سنا دی۔ اس فیصلے کے بعد ملزمان کے لواحقین نے شبنم سے معافی مانگی۔ یہ سب مالدار اور متمول لوگ تھے۔ شبنم نے انہیں معاف کر دیا۔ شبنم کے وکیل ایس ایم ظفر نے بھی صدر مملکت سے اسی نوع کی اپیل کی تھی۔ ان اپیلوں کی روشنی میں صدر جنرل ضیاالحق نے ملزمان کی سزائے موت کو 10، 10برس کی قید بامشقت میں تبدیل کر دیا۔
پاکستان کی پولیس تفتیشی ادارے اور عدالتی اہلکار کب بڑے بلند و پست کی تخصیص کئے بغیر ظالم کو سزا اور مظلوم کو اس حق دلائیںگے۔ عام آدمی کی داد رسی کب ہو گی؟ یہ سوالات آئے روز کئے جاتے ہیں لیکن جواب نہیں ملتا۔ قومی اسمبلی کی تحلیل ہونے والی ہے کہ اس کا دورانیہ مکمل ہونے کے قریب ہے لیکن دوہری شہریت، جعلی اسناد کے مقدمات باقی ہیں۔ سچ کہا کہ کسی نے بنی اسرائیل کی تباہی کا سبب یہ تھا کہ وہ غریبوں کو سزا دیتے تھے اور بلند حیثیت کے لوگوں کو معاف کر دیا جاتا تھا۔ کیا یہ حکمرانوں کی بے حسی، مقتدر حلقوں کی مجرمانہ خاموشی اور معاشرے کی اخلاقی پستی کی علامت نہیں کہ مقتدر افراد تو جرم کر کے بچ جاتے ہیں اور بے وسیلہ و بے آسرا کو گرفت میں لے لیا جاتا ہے۔ صد شکر کہ آج پاکستان میں عدلیہ بالخصوص چیف جسٹس سپریم کورٹ چونکا دینے والے اقدامات کر کے غریبوں کی دعائیں لے رہے ہیں۔ وہ ایسا نہ کرتے تو شاہ رخ جتوئی کیس ہی نہیں جانے کتنے مقدمات ”مٹی پاﺅ“ پالیسی کے تحت ”انڈر دی کارپٹ“ ہو چکے ہوتے۔

مزیدخبریں