کوئی امید برآئے

جب بھی جابر کے روبرو دیکھا
سچے انساں کو سرخرو دیکھا
اس کو پایا نہ مال و زر کا حریص
صرف مشتاق آبرو دیکھا
وہ جیا قلب مطمئن کے ساتھ
کبھی پھیلا نہ دیکھا اس کا ہاتھ
سر جھکایا نہیں سر دربار
چڑھا سولی یہ کہہ کے سچی بات
گود میں ماں کی باغ ملتا تھا
جس میں پل کر وہ پھول کھلتا تھا
چارسو پھیلتی تھی اسکی مہک
اس میں رنگ وفا نکلتا تھا
اب کہاں ایسا رہنما دیکھوں
کیا نظر آئے اور کیا دیکھوں
اس اندھیرے میں آسماں پر میں
چاند کو گرد میں اٹا دیکھوں
کوئی امید کاش بر آئے
کوئی صورت تو اب نظر آئے
ہو نہ جا¶ں میں بے حس و حرکت
دل میں یہ بے کلی نہ مر جائے
روز صبح سویرے اٹھتا ہوں
اوڑھ کر میں اندھیرے اٹھتا ہوں
خواب میں دیکھ کر میں اجلے چمن
سُونے آنگن میں تیرے اٹھتا ہوں
اے وطن اب تو مثل جنت ہو
اب تو پوری یہ میری منت ہو
مملکت ہو فلاحی اسلامی
ایسی جمہور کی حکومت ہو

ای پیپر دی نیشن