پاکستان امریکی جنگ میں پھنس گیا‘ ہم سب کو مل کر ملک بچانا ہے : جنرل (ر) شاہد عزیز


اسلام آباد (نامہ نگار) سابق جرنیلوں، سول سوسائٹی کے نمائندوں اور دانشوروں نے کہا ہے کہ جنرل (ر) شاہد عزیز کی کتاب کڑوا سچ ہے یہی باعث ہے کہ کتاب پر تنقید بھی ہو رہی ہے، پاکستان بچانے کے لئے ہم سب کو سچ بولنا ہو گا، جنرل شاہد کی کتاب خاموش انقلاب کی جانب ان کے دل کی آواز ہے اس آواز کو بلند کرنا ہم سب کا کام ہے تاکہ پاکستان حقیقی معنوں میں پاکستان بن جائے۔ جنرل شاہد کی تلخ باتوں سے فوج مضبوط ہو گی، موجودہ نظام کو اکھاڑ پھینکنے کی ضرورت ہے جس نے قوم کو تباہ کیا۔ ان خیالات کا اظہار جنرل (ر) شاہد عزیز کی کتاب ”یہ خاموشی کہاں تک؟“ کی تقریب رونمائی کے موقع پر آئی ایس آئی کے سابق سربراہوں حمید گل، جنرل (ر) اسد درانی، کرنل متین، بریگیڈیئر ماجد، طلعت عباس ایڈووکیٹ، جے سالک، ڈاکٹر جھمال ناصر، حریت رہنما پروفیسر اشرف صراف، سابق ایٹمی سائنس دان بشیر الدین محمود، شاہد عزیز کی اہلیہ انجم شاہد، ان کے بیٹوں، بیٹیوں اور خاندان کے دیگر افراد نے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ جنرل (ر) شاہد عزیز نے کہا کہ ہم سب کو مل کر پاکستان کو بچانا ہے اسے بچانے کے لئے فرشتے نہیں آئیں گے، بعض دوست ناراض ہوئے کہ کتاب لکھ کر فوج پر کیچڑ اچھالا، حالات بہتری کی جانب نہیں جا رہے ورنہ خاموش رہتا، ملک اور اداروں کو تباہی کی جانب جاتا نہیں دیکھ سکتا، فوج کا سربراہ عوام کی ناراضگی کی وجہ سے سخت فیصلہ نہیں کرتا، میری تلخ باتوں سے سپہ سالار کے ہاتھ مزید مضبوط ہوں گے۔ مشرف نے افغانستان میں امریکی جنگ میں غیر جانبدار رہنے کا وعدہ کیا لیکن بعد میں پاکستان اس جنگ میں پھنس گیا، میری کوشش ہے کہ نوجوان نسل میری کوتاہیوں سے کچھ سیکھ سکے، اپنی صفائی میں اور کچھ نہیں کہتا، یہ میرا محبت کا پیغام ہے نفرت کا نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ میں نے استعفیٰ کیوں نہیں دیا، میں فوج کا سپاہی تھی، اختلاف رائے پر فوج چھوڑی نہیں جاتی بلکہ اپنا نقطہ نظر دیا جاتا ہے، میں سیاستدانوں کو بھی الزام نہیں دیتا، یہ نظام ہی ایسا ہے، امریکہ سے گٹھ جوڑ پر اعتراض کیا، مشرف نے کہا کہ میں تصویر کا پورا کینوس نہیں دیکھ رہا، ان کی سوچ میں یہی فیصلہ بہتر تھا، مشرف کی پالیسی نے معاشرے کا رنگ بدل دیا، آج بھی وہی پالیسی جاری ہے، سب اس پالیسی میں حکومت کے ساتھ ہیں۔ جنرل (ر) حمید گل نے کہا کہ کتاب پر تنقید کرنا سراسر غلط ہے، رائے کا اظہار ہمارا آئینی اور اسلامی حق ہے، اگر صرف تنقید ہی کی جائے تو پھر کوئی بھی سچ بیان نہیں کرے گا، جنرل شاہد نے اپنی کتاب میں فیض کے اشعار کا بھی سہارا لیا ہے، یوں لگتا ہے جیسے وہ فیض کے بہت قریب ہیں۔ فوج کے اندر میری کوششوں کے باوجود اقبالؒ کو نہیں پڑھایا جاتا۔ ہمیں ناامید ہونے کی ضرورت نہیں، استعمار بھی ہماری زمین پر ڈوب رہا ہے، اب ہمارا وقت آ گیا ہے۔ سروے کے مطابق 82 فیصد پاکستانی اسلامی نظام چاہتے ہیں، فوج کو چھوڑے ہوئے 22 سال ہو چکے ہیں لیکن اب بھی پاکستان اور فوج میری محبت ہے۔ آج ملک میں جمہوری آمریت ہے مگر بی جمہوریت کا بت ٹوٹ رہا ہے ہمیں اس نے برسوں غلام رکھا اس سے خونریزی آئی، دوسرے ممالک کے وسائل لوٹے گئے، اب تو امریکہ کے اندر سے بھی اس کے خلاف تحریکیں چل پڑی ہیں۔ افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کی رخصتی کے بعد ایک خلا آئے گا، ہمیں ناامید نہیں ہونا چاہئے، ہمارا وقت آ رہا ہے۔ جنرل (ر) اسد درانی نے کہا کہ جنرل شاہد کی ہمت کی داد دیتے ہیں، کتاب میں ان کا انداز بیان کمال کا ہے، فوج ملک اور سول سوسائٹی کا حصہ ہے، غلطیاں لوگ کر سکتے ہیں بعض ضرورت کے تحت جھوٹ بھی بولتے ہیں۔ یہ کہنا غلط ہے کہ شاہد نے کتاب کیوں لکھی اگر اس پر تنقید ہو گی تو پھر کوئی دوسرا بھی نہیں لکھے گا، ہم ایک چیز کو اپنے طور پر سچ دیکھ رہے ہوتے ہیں لیکن پانچ چھ سال بعد پتہ چلتا ہے کہ وہ سچ نہیں۔ بشیرالدین نے کہا کہ یہ کتاب ایک سچے انسان اور بہادر سپاہی کی سچی کتاب ہے، بہادر شخص اپنی جیب میں ہر وقت استعفیٰ رکھتا ہے۔ انہوں نے نظام کے اندر رہتے ہوئے جو کچھ کر سکتے تھے کیا۔ پروفیسر اشرف نے کہا کہ مشرف کا یہ کہنا کہ وہ بڑا کینوس دیکھ رہے ہیں غلط بات ہے، کرگل کی جنگ اگر ہم نے جیتی تھی تو پسپائی کیوں اختیار کی، کیا ہماری پالیسی کسی اور کے ہاتھ میں ہے، مشرف کو خود بھی نہیں معلوم تھا کہ کرگل کی جنگ کیوں لڑی، افضل گورو کو پھانسی دینا عدالتی قتل ہے، وہاں اتفاق رائے ہے کہ جو بھی پاکستان کا نام لے اسے پھانسی پر لٹکا¶۔ انجم شاہد عزیز نے کہا کہ وہ ایک گھریلو خاتون ہیں، انہوں نے اپنے میاں کو ملک کے لئے کڑھتے ہوئے دیکھا، انہیں اپنے ملک سے محبت ہے، یہ کتاب اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ صحافی سعود ساحر نے کہا کہ سچ بولنا اس وقت بولنا ضروری ہوتا ہے جب کوئی کام سرزد ہو رہا ہو اس کے بعد سچ بولنا قوم کے منہ پر جوتے مارنے کے مترادف ہے۔
شاہد عزیز

ای پیپر دی نیشن