طالبان اور حکومتی مذاکرات پر اس وقت ساری قوم کی نگاہیں لگی ہوئی ہیں۔ آگ اور بارود کی جنگ جس نے سارے وطن کو جھلسا کر رکھ دیا ہے،کیا یہ جنگ اب بند ہونے والی ہے؟ کیا طالبان اور حکومتی مذاکرات کامیاب ہو جائیں گے؟ مجھے یاد ہے ایک انتہائی سینئر تجزیہ کار نے مجھ سے کہا تھا کہ ہم ہر روز سیاسی معاملات پر ٹاک شوز میں تجزیہ کرتے ہوئے ایک بات بھول جاتے ہیں کہ ایک آفاقی، ان دیکھی طاقت بھی ہے جو اپنا کام کر رہی ہے۔ ہم سیاست کے رجحان کا جائزہ لینے کےلئے کبھی حکومت‘ کبھی اپوزیشن تو کہیں بائیں بازو توکبھی دائیں بازو کی سیاست پر غور کرتے ہیں‘ مگر ایک اور طاقت جو سب سے بڑی اور عظیم طاقت ہے‘ وہ ہماری نگاہوں سے اوجھل اپنی تدبیریں کرتی رہتی ہے اور ہمارے تجزیوں اور تبصروں پر مسکراتی رہتی ہے ”وہ اپنی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کر رہا تھا اور اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے“ مذاکرات شروع ہونے پر شکوک و شبہات ظاہر کیے جا رہے تھے‘ بائیں بازو کے تجزیہ کار مذاکرات کے بجائے فوجی آپریشن کے حق میں تھے اور ان مذاکرات کے خلاف تھے‘ دائیں بازو کے تجزیہ کار آپریشن کے بجائے مذاکرات کو ہی آخری حل قرار دے رہے تھے‘ مذاکرات کے حق اور اس کی مخالفت میں دلیلوں کا ایک سیلاب آیا ہوا تھا‘ ہر پاکستانی کی طرح میں تو بس اپنے وطن کو آگ اور خون کے اس کھیل سے باہر نکلتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہوں کہ کسی طرح یہ آگ تو بجھے‘ چاہے پاکستانی کی بقا کےلئے کوئی بھی طریقہ اختیار کیا جائے۔ شکوک و شبہات کے باوجود مذاکرات شروع ہو ہی گئے۔ اس کے ساتھ ہی پشاور اور کراچی میں دھماکوں کا ایک خونی سلسلہ بھی شروع ہو گیا اور بات چیت آگے بڑھنے پر خدشات کے بادل منڈلانے لگے مگر اس کے باوجود مذاکرات آگے بڑھتے رہے اور اب تو خود طالبان کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق‘ ملک کی بتیس مذہبی جماعتوں اور دو سو سے زائد جید علماء نے حکومت اور طالبان سے جنگ بندی کی اپیل کر دی ہے اور کہا ہے کہ فریقین احتیاط کا مظاہرہ کریں قوم کو آگ اور خون کے کھیل سے نجات دلانے کےلئے امن مشن کو ہر صورت کامیاب بنایا جائے۔ مذاکرات کے حوالے سے سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ اس کےلئے تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا گیا اور اس حوالے سے حکومت نے طالبان کمیٹی کے سامنے واضح کر دیا کہ یہ مذاکرات آئین پاکستان کی حدود میں رہ کر کئے جائیں گے۔ حکومت کے مزاکرات کے حوالے سے سنجیدہ نہ ہونے کا بھی چرچا کیا گیا اور کہا گیا کہ حکومت مذاکرات صرف وقت گزارنے کےلئے کر رہی ہے اور مارچ کے مہینے میں شمالی وزیرستان میں ایک بڑا فوجی آپریشن شروع کر دیا جائے گا‘ مگر اسی دوران امریکی میڈیا نے خبر دی کہ حکومت پاکستان کی درخواست پر امریکہ نے مذاکرات کے دوران ڈرون حملے روک دیے ہیں۔ اس خبر سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ حکومت ان مزاکرات میں مخلص اور سنجیدہ ہے۔
لگتا ہے کہ قدرت کو بھی ہم پر رحم آ گیا ہے۔ ہماری دھرتی پر پچاس ہزار پاکستانیوں کا لہو بہہ چکا ہے‘ دہشت گردی کی جنگ میں سو ارب ڈالر کے معاشی نقصان کی وجہ سے آج ہم مفلوک الحال اور مقروض قوم بن چکے ہیں جس کا ہر پیدا ہونے والا بچہ ستر ہزار روپے کا مقروض ہے۔ جہاں نہ بجلی ہے نہ گیس‘ ہر ادارہ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے فوجی آپریشن کے بارے میں پھر سوال اٹھایا ہے کہ اگر مذاکرات فیل ہو گئے تو ملٹری آپریشن کریں گے۔ ملٹری آپریشن فیل ہو گیا تو پھر کیا کریں گے؟ یہی سب سے اہم سوال ہے۔ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں دوسرا راستہ آپریشن ہے‘ مگر آپریشن تو نو سال سے کئے جا رہے ہیں ان آپریشنزکے وقتی طور کچھ فوائد بھی حاصل ہوئے مگر پھر بھی دہشت گردی نہ رک سکی۔ ہماری فوج یقیناً پیشہ وارانہ اعتبار سے دنیا کی ایک بہترین جنگجو فوج ہے اور یہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے مگر اپنی فوج کو ایک طویل جنگ میں جھونکنا کیا دانشمندی ہے؟ فوجی آپریشن کے نتیجے میں بڑی تعداد میں مقامی افراد کو نقل مکانی بھی کرنی پڑے گی جو ایک بڑا انسانی المیہ بھی بن سکتا ہے اور پھر کیا ہماری معیشت کسی طویل آپریشن کی متحمل ہو سکتی ہے؟ طالبان کسی منظم فوج کی طرح ایک جگہ موجود نہیں ہیں وہ فاٹا سے لے کر کراچی تک پھیلے ہوئے ہیں اور یہ ایک تلخ حقیقت ہے‘ امریکی اخبار وال سٹریٹ جنرنل نے اس حوالے سے چودہ فروری کو ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ طالبان نے پاکستان کے معاشی مرکز کراچی پر اپنی گرفت مضبوط کر دی ہے اور اب کراچی کے 33 فیصد حصے پر طالبان کا کنٹرول ہے اور یہ تیزی سے شہر میں پھیل رہے ہیں اور امریکی اخبار نے اس تاثر کی بھی نفی کی ہے کہ طالبان میں صرف پشتون ہی شامل ہیں‘ وال سٹریٹ جنرنل نے لکھا ہے کہ طالبان اپنی تنظیم میں غیر پشتون تعلیم یافتہ نوجوانوں کو شامل کر رہے ہیں کراچی کے ایس ایس پی سی آئی ڈی راجہ عمر خطاب نے بھی اسی خوف کا اظہار کیا ہے کہ اگر یہ مذاکرات ناکام ہوئے تو کراچی کو دہشت گردی کی ایک بڑی لہر کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہی وہ خطرہ ہے جس سے بچنے کےلئے ہر پاکستانی ان مذاکرات کی کامیابی کی دعا مانگ رہا ہے۔
مذاکرات کے حوالے سے یہ بھی بارہا کہا گیا کہ فوج ان مذاکرات کی حمایت نہیں کر رہی ہے مگر اب تو وزیراعظم میاں نواز شریف نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے معاملے اور افغان مسئلے پر فوج اور حکومت کے درمیان مکمل ہم آہنگی ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے ساتھ ساتھ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار کو بھی ان مذاکرات کے حوالے سے یہ کریڈٹ ضرور ملنا چاہئے کہ انہوں نے ان مذاکرات کےلئے نہایت محنت کی ہے اور بہت سی رکاوٹوں کے باوجود پیچھے نہیں ہٹے۔ احمد ندیم قاسمی کی طرح میری بھی بس یہی دعا ہے کہ....
خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو
خدا کرے نہ کبھی خم‘ سرِ وقارِ وطن
اور اس کے حسن کو تشویش ماہ وسال نہ ہو