کیجری وال کی بد قسمتی

نئی دہلی کے نومولود وزیر اعلی اروند کیجری وال نے انچاس دن کی حکومت کے بعد استعفی دے دیا ہے، حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے۔کیجری وال کوئی بڑی طاقت نہیں تھا لیکن بہار آفریں تبدیلی کی علامت ضرور تھا ۔ اسے کانگرس اور بی جے پی کے دو منہ والے سانپ نے ڈس لیا، کیجری وال کی سیاست کا آغاز اناہزارے کی کرپشن کے خلاف تحریک کے ساتھ ہوا۔اس نے ریاستی انتخاب میں پرانی دونوں سیاسی جماعتوں، کانگرس اور بی جے پی کو شکست دے کر نئی دہلی میں اقلیتی حکومت قائم کی۔اس نے اقتدار سنبھالتے ہی انتخابی وعدوں پر عمل در آمد شروع کر کے سیاسی پنڈتوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ بر صغیر میں سیاسی جماعتیں عام طور پر جھوٹے وعدوںکا سہارا لیتی ہیں، بھٹو نے روٹی کپڑے مکان کا نعرہ لگایا۔اس بات کو چالیس برس سے اوپرہو چلے ہیں ، اس دوران پی پی پی کو پانچ مرتبہ اقتدار ملا، پی این اے نے اس کے مقابلے میں ستر کی قیمتیں واپس لانے کا وعدہ کیا،اس اتحاد میں شامل لوگ کسی نہ کسی رنگ میں ہمیشہ بر سرا قتدار رہے لیکن ہمیشہ مہنگائی میں اضافے کا باعث بنے۔پاکستان کے حالیہ انتخا بات میں عمران خاںنے تبدیلی کا نعرہ لگایا اور ن لیگ نے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے اور کشکول توڑنے کا مگر عمران خان اسٹیٹس کو، کا حصہ بن چکا اور ن لیگ نے دونوں وعدوں کے بر عکس کیا،پہلے لوڈ شیڈنگ گرمیوںمیں ہوتی تھی ، اب سردیوں میں بھی ہو رہی ہے اور کشکول توڑنے کے بجائے پہلے سے بڑا کشکول اٹھا لیا گیا ہے۔ تین بار وزیر خزانہ بننے والے اسحق ڈار کے ہاتھ میں زمام کار ہے۔وہ حکمرانوں کے گھر کا بندہ بھی ہے، اسے مکمل آزادی عمل حاصل ہے مگر ملک میں مہنگائی کی شرح بڑھ رہی ہے اور غریب کی کمردوہری ہو گئی ہے۔ مگر دوسری طرف بھارت میں ایک عام آدمی اروند کیجری وال نے معجزے پہ معجزہ کر دکھایا، اس نے پہلا قدم اٹھایا تو غریب کے لئے پانی فری کر دیا ، اگلے ہی روز اس نے دوسرا قدم اٹھایاا ور بجلی کے نرخوں میں پچاس فی صدکمی کر دی،اس نے دہلی پولیس کو نتھ ڈالنے کی کوشش کی جو غریب رکشے والوںکا خون نچوڑنے کی ماہر ہے،اور پھر اس نے کرپشن کے خلاف خود کش حملہ کیا، اسے معلوم تھا کہ اس کی حکومت ٹھاہ ہوجائے گی لیکن اس نے اس حملے میں بھارت کی دونوں جغادری پارٹیوں کی سوچ کو ننگا کر دیا کہ کس طرح وہ کرپشن کے مسئلے پر متحد ہیں اور کسی تیسری قوت کے سامنے احتساب کے لئے پیش ہونے کو تیار نہیں۔اروند کیجری وال نے نئی دہلی کی اسمبلی میں انٹی کرپشن بل پیش کرنے کی کوشش کی، پہلے تو مرکزی حکومت نے دہلی کے گورنر کے ذریعے آئینی رکاو ٹ ڈالنے کی کوشش کی، مرکزی حکومت کا استدلال یہ تھا کہ نئی دہلی سرکار، کوئی بل اس کی پیشگی منظوری کے بغیر اسمبلی میں نہیں لے جا سکتی۔اروند کیجری وال نے ایک چال یہ چلی کہ اسمبلی کا اجلاس کھلے میدان میں منعقد کیا جائے جہاں عوام بھی موجود ہوں، اس پر شور مچا کہ اسمبلی کے لئے مخصوص بلڈنگ کے سوا کہیں اجلاس نہیں ہو سکتا ، اور خاص طور پر کھلے میدان میں جہا ںعوام بھی موجود ہوں گے، وہاں انٹی کرپشن بل کی مخالفت کرنے والے عوامی غیظ و غضب سے ڈر کر اپنی رائے نہیں دے سکیں گے، جب کیجری وال کو چاروں طرف سے گھیر لیا گیا تو اس نے پھر بھی ہار نہیں مانی اور اسمبلی میں اچانک اٹھ کر بل پیش کر دیا جس پر اسپیکر کو ووٹنگ کرانا پڑی، کیجری وال کو معلوم تھا کہ ووٹنگ میں شکست یقینی ہے مگر وہ دنیا کو بتانا چاہتا تھا کہ ملک کی دونوں بڑی جماعتیںجو کرپشن سے لتھڑی ہوئی ہیں، احتساب سے گریزاں ہیں۔
احتساب سے گریز صرف بھارت کا وطیرہ نہیں ہمارے ہاں بھی یہ کھیل اپنے عروج پر ہے۔جنرل ضیاالحق نے الیکشن اس نعرے پہ ملتوی کئے کہ پہلے احتساب،پھر انتخاب، یہ احتساب گیارہ برس تک نہ ہو سکا، اٹھاسی کے بعد ننانوے تک دو جماعتیں باری باری اقتدار میں آئیں، ہر بار ان کی حکومتوں کو کرپشن کے الزامات کے تحت رفو چکر کیا گیا مگر کسی جماعت نے اپنے مخالفین کا احتساب کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔سارا زور بلیم گیم پر رہا، ایک دوسرے کے خلاف کرپشن کے مقدمات زور شور سے بنائے گئے، کسی نے مخالف کو ٹین پرسنٹ کہا ،کسی نے اپنے مخالف کو تیس پر سنٹ کا لقب دیا ، اور کوئی مسٹرنائنٹی پر سنٹ کہلایا۔لڑتے لڑتے ہوگئی گم، ایک کی چونچ اورایک کی دم۔ایک جماعت کی لیڈر شپ خود ساختہ جلاوطن ہو گئی ، دوسری نے بھی عرب دوستوں کو درمیان میں ڈال کر جلاوطنی اختیار کر لی۔ اسی دوران دونوں کو خیال آیا کہ وہ بلیم گیم کی غلط روش پر چلتے رہے ہیں ، انہوںنے لندن میں بیٹھ کر میثاق جمہوریت کیا،جس میں احتساب کے لئے آزاد، غیر جانبدار ادارے کے قیام پر اتفاق رائے کیا گیا۔اب تک ایک پارٹی پانچ سال کڑکا چکی ہے، اس نے احتساب کے لئے کوئی ایک قدم نہیں اٹھایا، دوسرا فریق بھی ایک سال حکومت کر چکا ہے، اس نے بھی کسی کے احتساب کی ضروت محسوس نہیں کی، بھارت کی طرح کرپشن کرنے اور اس کے احتساب سے بچنے پر دونوں بڑی پارٹیوں کا اتحاد نظرا ٓتا ہے۔دونوں پارٹیوں کی قیادت نے مخالفین پر غلیظ تریں اور سنگین تریں الزامات لگائے مگر کوئی ثبوت، کوئی احتساب۔۔ نشتہ!
لگتا ہے کہ میثاق جمہوریت ،اصل میں میثاق فروغ کرپشن تھا۔
احتساب سے فرار کی ایک مثال جدید ترکی بھی ہے جہاں اتاترک ثانی طیب اردوان کا دور دورہ ہے۔ عوام کا بڑا طبقہ ان کی کرپشن کا احتساب کرنا چا ہتا ہے، جناب فتح اللہ گولن پنسلیوینیا امریکہ میں بیٹھ کر اس طبقے کی راہنمائی فرما رہے ہیں۔اردوان نے احتساب سے بچنے کے لئے گولن کے ہزاروںحامی سرکاری ملازمین جن میں پولیس اور جوڈیشل سروس کے لوگ شامل ہیں ،کے تبادلے کر دیئے ہیں یا ان کی تنزلی فرما دی ہے، اب جمعے کی شام انہوںنے پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کیا جس کے تحت وہ عدالتوں کے اختیارات محدود کرنا چاہتے ہیں،پارلیمنٹ کا بیس گھنٹے کا یہ اجلا س ہفتے کی صبح تک جاری رہا،اس میں مار کٹائی اس زور سے ہوئی کہ ایک اپوزیشن رکن کی ناک سے خون کا فوارہ بہہ نکلا ، اور حکمران پارٹی کے ایک رکن کی انگلی ٹوٹ گئی، اس ماردھاڑ کے نتیجے میں حکمران پارٹی نے بل منظور کرلیا، اپوزیشن کا خیال ہے کہ ابھی صدر نے اس پر دستخط کرنا ہیں اور اسے عدالتوں میں بھی چیلنج کیا جا سکتا ہے، بہر حال دیکھئے قطرے پرگہر بننے تک کیا گزرتی ہے۔
انہی دنوں ہمارے قائد اعظم ثانی بھی ترکی میں موجود تھے، پتہ نہیں انہوںنے اس سے کیا سبق سیکھا۔ا س سے قبل ہمارے کالم نگاروں کا ایک ٹولہ بھی ترکی سے ہو کر آیا، اس میں اجمل نیازی بھی شامل تھے، وہ کچھ مشاہدات بیان فرمائیںتو حقیقت کا پتہ چلے۔
نئی دہلی میں کیجری وال کی بدقسمتی دراصل پسے ہوئے ، مظلوم و مجبورو مقہور عوام کی بد قسمتی ہے جو کرپشن اور مہنگائی کے عفریت کے چنگل میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن