دنیا میں کسی بھی قوم کے آگے بڑھنے کیلئے ضروری ہوتا ہے وہ اپنے ماضی سے بھی جڑی رہے اور مستقبل کے تقاضوں کے مطابق اپنے رویوں میں جدت پیدا کر کے آگے بھی بڑھتی رہے، مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ نہ تو ہماری نئی نسل کا اپنے درخشاں ماضی سے کوئی رشتہ باقی رہا ہے اور نہ ہی انہیںمستقبل کیلئے تیارکیا جا رہا ہے ، ایسے میں انہیں مایوسی کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ یہ خیال مجھے ترکی کے حالیہ دورے میں ترک قوم کو تیزی سے آگے بڑھتے دیکھ کر آیا۔ ترک قوم نہ صرف کام کام اور صرف کام کے فلسفے پر عمل پیرا ہے بلکہ اسلام اور رسول کریمؐ کی محبت سے بھی سرشار ہے۔اس بار کیونکہ ہمارے ساتھ رہنمائی کیلئے ترک بھی تھے اس لئے ترکی کے ماضی اور حال کو سمجھنے میں بہت مدد ملی۔ ترکی کا شہر استنبول وہ شہر ہے جو دنیا کی تین عظیم سلطنتوں کا دارالحکومت رہا ہے۔ یہ شہر رومی سلطنت ، بازنطینی سلطنت اور پھر سلطنت عثمانیہ کا دارالحکومت رہ چکا ہے۔ یہ مشرق اور مغرب کا حسین سنگم ہے ، یہ وہ خطہ ہے جہاں ایشیا اور یورپ ملتے ہیں۔ جہاں دو تہذیبوں کا ملاپ ہوتا ہے۔ مجھے جلیل القدر صحابی حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار پر جانے کی سعادت بھی حاصل ہوئی ، حضرت ایوب انصاریؓ وہ خوش نصیب صحابی ہیں جنہیں مدینہ میں رسول کریمؐ کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا ، قسطنطنیہ کی فتح کے متعلق رسول کریم کا فرمان سنا کہ ’’ تم ضرور قسطنطنیہ فتح کرو گے، وہ فاتح بھی کیا باکمال ہو گا اور وہ فوج بھی کیا باکمال ہو گی‘‘ یہ حدیث مبارک سن کر حضرت ابو ایوب انصاریؓ اس خوش نصیب لشکر کا حصہ بننے کیلئے بے چین ہو گئے۔ جب امیر معاویہ نے قسطنطنیہ کی فتح کیلئے لشکر روانہ کیا تو اس وقت حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ بہت ضعیف ہو چکے تھے ، لیکن اسکے باوجود آپ لشکر اسلام میں شامل ہوئے۔ دشمن کے مقابلے میں ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ بیمار ہو گئے۔ بیماری نے شدت اختیار کی اور محسوس ہوا کہ اب آخری وقت آ پہنچا ہے۔آپ ؓنے وصیت کی کہ دشمن کی سرزمین میں پیش قدمی کرتے ہوئے آخری حد تک پہنچنا اورمجھے قسطنطنیہ کی دیوار کے نزدیک دفن کرنا۔ انکی وصیت پر عمل کیا گیا اور دیوار قسطنطنیہ کے سائے میں ان کو دفنایا گیا۔ حضرت ابو ایوب انصاری کی زندگی آغاز سے انجام تک رسول کریم ؐ کی محبت میں گزری اور اس کا اختتام بھی آپ ؐ کے فرمان کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ہوا ، اسکے بعد بھی بہت سے مسلم حکمرانوں نے نبی کریمؐ کی بشارت کو پورا کرنے کی کوششیں کی ۔ سات سو سال بعد یہ عظیم سعادت سلطان محمد فاتح کے حصے میں آئی۔اکیس سالہ سلطان محمد فاتح عظیم ترک حکمران سلطان مراد ثانی کے بیٹے تھے۔ رسول کریمؐ کی محبت سے سرشار تھے ، نبیؐ کی بشارت کو پورا کرنے کا عزم کیا ، اپنی فوج کو جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس کیا ، اپنے دشمنوں بازنطینیوں کا ایک ماہر اسلحہ ساز جس کا نام اربان تھا اور اس کا تعلق ہنگری سے تھا اسے بلوایا اور منہ مانگے معاوضے پر بہترین توپیں اور گولہ بارود بنانے پر مامور کیا ، حملے کیلئے تین سو جنگی جہاز تیار کیے اور ستر ہزارفوج لے کر اس وقت کی دنیا کے ایک ناقابل تسخیر شہر قسطنطنیہ کو فتح کر نے کیلئے چل پڑا۔ دوسری جناب قسطنطنیہ کو بچانے کیلئے یورپ کے سارے حکمرانوں نے اپنی اپنی فوجیں اور بحری جہاز قسطنطنیہ پہنچا دیئے۔ سلطان محمد فاتح چالیس روز تک شہر کا محاصرہ کیے رہا۔ شہر کی فصیل توڑنے کیلئے ہر ممکن کوشش کی مگر ناکام رہا، ایک سرنگ کھود کر فصیل کے اندر پہنچنے کی کوشش بھی کی مگر یہ تدبیر بھی کارگر نہ ہوئی۔ سمندر کے راستے گولڈن ہارن کے اندر بحری جہاز داخل کرنے کی کوشش کی مگر قیصر قسطنطین نے گولڈن ہارن میں سمندر کی جانب بندرگاہ کے دہانہ پر ایک بھاری لوہے کی زنجیر اس طرح باندھی تھی کہ کوئی جہاز اندر داخل نہ ہو سکتا تھا۔ سلطان کے وزیروں نے اسے مشورہ دیا کہ قسطنطنیہ کو فتح کر نا ممکن نہیں ہے لہٰذا بہتر یہی ہے کہ واپس چلا جائے ، مگر سلطان محمد فاتح ہر قیمت پر رسول کریمؐ کی بشارت کو پورا کرنا چاہتا تھا۔ اس نے ایک ناقابل یقین تدبیر پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا باسفورس کے پہاڑوں کے ساتھ ایک وسیع اور گھنا جنگل تھا اس جنگل سے ہزاروں درختوں کو کاٹا او سینکڑوں جانور ذبح کر کے ان کی چربی ان درختوں کے تنوں اور تختوں پر لگا کر خوب چکنا کیا گیا پھر خشکی پر درختوں کے تنے رکھ کر ان پر چربی سے چکنے کیے گئے تنے رکھے اور ان پر بحری جہاز رکھ کر ان کورسوں کی مدد سے راتوں رات کھینچ کر پہاڑ پر چڑھا کر دوسری جانب قسطنطنیہ شہر کے ساتھ سمندر میں اتار دیا گیا۔ صبح جب شہر والے اٹھے تو ترکوں کے بحری جہاز اپنے سامنے دیکھ کر حیران و پریشان ہو گئے اور ہمت ہار گئے۔ 29 مئی 1453ء کی شام سلطان محمد فاتح بازنطینی دارالحکومت استنبول میں ایک فاتح کی حیثیت سے داخل ہوا۔ نامور مورخ ایڈورڈ گبن نے اس فتح کو ایک معجزہ قرار دیا۔ مسلمانوں کی تاریخ میں استنبول کی فتح ایک تاریخی کامیابی سمجھی جاتی ہے۔ اس کامیابی سے یورپ میں اسلام کے داخلے کی راہ کھل گئی اور یہ ایک اکیس سالہ مسلم نوجوان کا عزم ہی تھا کہ بازنطینی سلطنت کا خاتمہ ہوا اور آج استنبول کی فضائیں اذانوں کی آواز سے گونج رہی ہیں۔ سلطان محمد فاتح آج ترک قوم کے ایک ہیرو کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ سلطان ایک انتہائی وسیع القلب حکمران تھا، فتح کے بعد شہر میں موجود تمام عیسائی شہریوں کو امان دے دی گئی اور جب یورپ میں یہودیوں پر مظالم کا سلسلہ شروع ہوا اور وہ درد بدر ہونے پر مجبور ہوئے تو سلطان فاتح نے ان یہودیوں کو ترکی میں پناہ دی۔ نسل کشی کے شکار یہودیوں کیلئے سلطنت عثمانیہ نے اپنے دروازے کھول کر جس رواداری کا مظاہرہ کیا، وہ ہمارے لئے ایک سبق ہے کیونکہ آج غیر مسلم تو ایک طرف ، مسلمان صرف مسلک اور فرقے کی بنیاد پر ایک دوسرے کے گلے کاٹنے میں مصروف ہیں۔ تنگ نظری، مذہب کے نام پرعدم برداشت اور دہشتگردی ہماری پہچان بن چکی ہے۔ مگر اس کا نہ تو اسلام سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہماری شاندار تاریخ سے۔ آج ہم کیا بن چکے ہیں بقول اقبال؎
تم ہو آپس میں غضبناک، وہ آپس میں رحیم
تم خطا کارو خطابیں، وہ خطا پوش و کریم
رحمتہ اللعالمینؐ کے نام لیواآج نفرت ، عدم برداشت اور خون ریزی کے راستے پر چل پڑے ہیں، مگر دراصل ہمارا ماضی ہمارا ورثہ تو حضرت ابو ایوب انصاری جیسے صحابہ اور سلطان محمد فاتح جیسے حکمران ہیں جنہوں نے نبی کریمؐ کی بشارت کو پورا کرنے کیلئے اپنی جان کی بازی لگا دی اور جن کی زندگی تمام مسلم نوجوانوں کیلئے ایک مثال ہے۔ یہ ہے رسول کریمؐ کی محبت کا اصل عملی نمونہ جس نے ہمیں سلطنت عثمانیہ جیسی شاندار حکومت دی اور استنبول جیسا عالیشان شہر دیا جو دنیا میں اپنی مثال آپ ہے۔ یہ ہے اصل اسلام کی روح جس میں ترقی ہے اور امن و سلامتی ہے نہ صرف مسلمانوں کیلئے بلکہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کیلئے ۔