ہم بطور پاکستانی کرپشن کی جس انتہاءپر ہیں اس کا اظہار ٹرانسپیرنسی یا اس قبیل کی عالمی تنظیموں کی طرف سے ہوتا ہے۔ گویا ہمیں خود پتہ نہیں کہ ہم کتنے ایماندار اور دیانتدار ہیں۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے تازہ ترین رپورٹ میں جب یہ بتایا گیا کہ کی شفافیت کی درجہ بندی میں ہماری ریٹنگ بہتر ہوئی ہے، ہم168ممالک میں 126 سے117 ویں نمبر پر آگئے ہیں تو چیئرمین نیب چودھری قمر الزمان اوروزیراطلاعات پرویز رشید نے اسے حکومت کی مثالی اور بہترین کارکردگی قرار دیا۔ڈنمارک 2014کی طرح اگلے سال بھی شفافیت میں پہلے نمبر پر رہا،168 واں نمبرصومالیہ کا ہے۔دنیا کے پہلے 10کرپشن فری ممالک میں ڈنمارک،فن لینڈ، سویڈن، نیوزی لینڈ، ہالینڈ، ناروے، سوئٹزرلینڈ، سنگاپور،کینیڈا اور جرمنی شامل ہیں۔ انتہائی کرپٹ ممالک میں صومالیہ، شمالی کوریا، افغانستان، سوڈان، جنوبی سوڈان، انگولا، لیبیا، عراق اور وینزویلا کاشمار ہوتا ہے،ان میں اندازہ کر لیں کرپشن کا کیا حال ہو گا۔
ایک مچھلی پورے جل کو گندا کرنے کے مترادف، بے ایمانی اور بدعنوانی میں ملوث تو با اختیار لوگ ہیں۔ وہ بھی سب کے سب نہیں۔ ذاتی معاملات میں بھی سارے پاکستانی دو نمبری نہیں کرتے مگر جب منفی یا مثبت رپورٹیں مرتب ہوتی ہیں تو دنیا کی نظریں میںسب پاکستانی برابر ہی ہوتے ہیں۔ دہشتگردی کا شکار ممالک کی درجہ بندی ہیں ہم سر فہرست ممالک کی صف میں شامل ہیں۔ یہ دہشتگردی بھی ہماری خود کاشت کردہ ہے۔جب دنیا میں یہ نشر ہوتا ہے کہ بچوں کو اغواءکر کے ذبح کرکے اور قبروں سے مردوں کو نکال کر کھا لیا جاتا ہے تو دنیا ہمیں آدم خورہی سمجھے گی۔ہم بڑے فخر سے عالمِ اسلام کی پہلی ایٹمی قوت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیںاوراسی زعم میں عالم اسلام کی رہنمائی کےلئے خود کو پیش کرتے ہیں۔ پاکستان کو اسلام کا قلعہ قرار دینے والوںکو جب پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں گدھے اور کتے کا گوشت فروخت ہوتا ہے تو وہ عالم اسلام کی رہنمائی مدعیان کے بارے میں کیا خیالات رکھتے ہونگے؟
اخلاقیات کی بات کریں تو ہم اپنے رویوں سے جاہل اجڈ، گنوار اور جنگلی قرار پائیں گے۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ ہماری کرکٹ ٹیم اوراس کے حکام دیگر خرافات کی طرح جوئے کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی نہیںمانتا تھا تو سلمان بٹ محمد، آصف اور محمد عامر نے اس کا ارتکاب اور سزا کے بعد اعتراف کر کے ان کو بھی باور کرایا دیا کہ ہم ایسے ہی ہیں۔ پی آئی اے کے ملازمین نے ہڑتال کر کے پوری دنیا کو تماشا دکھایا۔ جس ”خلوص اور نیک نیتی“ سے پی آئی اے ملازمین نے منافع بخش ادارے کو برباد کیا۔ اسی ”اخلاص“سے حکومت نے اس کی نجکاری کا فیصلہ کیا ہے۔ پہلے کسی قدرتی آفات پر دنیا ضرورت سے زیادہ امداد اور امدادی سامان بھیجا کرتی تھی ہمارے کردار اور کرتوت کو دیکھ کر اب وہ بھی منہ پھیر لیتی ہے۔ویسے تو دیگر مقاصد کےلئے سعودی عرب گفٹ میں بھی ڈیڑھ ارب ڈالر دے دیتا ہے۔ ہمارے ملک کی اخلاقی انحطاط کا شکار آبادیوں اور بستیوں کا تھڑا کلچر پاکستان کی عالمی سطح پر نمائندگی کرنیوالی شخصیات کی گفتگو اور رویوں سے بھی عیاں ہوتا ہے۔
اخلاقیات کی بات کریں تو ہم اپنے رویوں اور گفتگو سے دنیا کے سامنے خود کو نمایاںاورعیاں بلکہ ننگا کرتے ہیں۔ دنیا نے دبئی میں وہاب ریاض او رشہزاداحمد کو آپس میں الجھتے دیکھا۔ ایک دوسرے کےلئے جو کلمات کہے وہ بھی خیر کے نہیں ہونگے۔ کئی کرکٹ کے دانشور کہتے ہیں ”ایسا ہوتارہتا ہے“۔ ضرور ہوتا ہو گا مگر ایساتو مہذب معاشرے کی گلیوں اور محلوں میں بھی نہیں ہوتا۔ یہ تو قومی سطح کے کھلاڑی ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں۔ انکی تربیت سے پہلے کرکٹ انتظامیہ اور حکام کی تربیت کی ضرورت ہے۔ وہ ادارے جو کسی بھی حوالے سے کرپشن، ترقی اور دیگر معاملات کی درجہ بندی کرتے ہیں اگر وہ دنیا کے اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ممالک کی درجہ بندی کریںتو زعمائے سیاست اور مقتدران ریاست کے بیانات کو معیار بنا کر پاکستان کو پہلے درجے پر رکھیں گے۔سیاست دان ایک دوسرے کو آلو، الزام خان، شوباز، ڈیزل بیمار خان ،مچھندر،تیلی پہلوان ،مولا جٹ جیسے ناموں سے پکارتے ہیں۔انکے بیانات ملاحظہ فرمایئے ۔”فوج کی اینٹ سے اینٹ بجا دینگے۔ اوئے نواز شریف! انہوں نے بال لڑکیاں پھنسانے کےلئے لگوائے ہیں۔ الٹا لٹکا دوں گا۔ پیٹ پھاڑ کر کرپشن کے پیسے نکالوں گا۔ بھاٹی میں گھسیٹوں گا۔ “ اب تو گالم گلوچ بھی سیاست میں در آئی ہے۔ آزاد کشمیر کوٹلی میں پی پی پی اور ن لیگ کے کارکنوں کی ایک دوسرے پر فائرنگ اور پتھراﺅں سے پیپلز پارٹی کا ایک کارکن جاں بحق اور دس زخمی ہوگئے۔سیاسی کشیدگی کی فضاءپہلے سے موجود اور ایکدوسرے پر اشتعال انگیز بیان بازی کی بمباری جاری تھی اس میں کوٹلی سانحہ کے بعد مزید اضافہ ہوگیا ۔ ایک ٹی وی چینل پر وزیر اعظم عبدالحمید چودھری نے کہا امور کشمیر کے وزیر برجیس طاہر نے مجھے پاکستان میں پہاڑی بکرا اور کشمیر میں آ کر بکری کہا۔ یہ کہتے تھے پہاڑی بکرے کو ذبح کردینگے“۔ برجیس طاہر نے اخباری تراشے لہراتے ہوئے دوبدو فرمایا“ وزیر اعظم آزاد کشمیر نے مجھے یزید اور خبیث قرار دیا۔ مجھے پرویز رشید اور آصف کرمانی کو بدمعاش کہا۔“ پرویز رشید خود کو حق پر سمجھتے ہیں۔ انہوںنے کہا ”سچائی سامنے آئیگی تو بلاول بھٹو عبدالحمید چودھری کے کان کھینچیں گے۔ پرویز رشید کیا خوبصورت دلیل تراش کے لائے فرماتے ہیںکوٹلی میںخونیں واقعہ وزیر اعظم عبدالحمید کے غیر ذمہ دارانہ بیانات کے باعث پیش آیا۔ کسی کے بیانات خواہ کتنے ہی اشتعال انگیز ہوں، ان کا جواب گولی نہیں ہے۔ عابد شیر علی کو نہ جانے ایک پاور پلانٹ کے افتتاح کے موقع پر کیا سوجھی،انہوں نے اچانک عمران خان پر چڑھائی شروع کردی۔” عمران خان بک بک کرتے ہیں۔“
اپنی بات کہنے کےلئے الفاظ کا انتخاب موزوں ہونا چاہیے۔ دوسرے کو گالی دے کر آپ خود اپنے اخلاقی دیوالیہ پن کا اظہار کرتے ہیں۔ ضرورت پڑنے پر نواز شریف بھی پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے رہنماﺅں کا ترکی بہ ترکی جواب دیتے رہے ہیں مگر انکے الفاظ اخلاق سے گرے ہوئے نہیں ہوتے گو ذاتی زندگی میں انکی زبان سے ہمیشہ پھول ہی نہیں برستے تاہم میڈیا میں وہ محتاط رہتے ہیں۔ میڈیا میں گفتگو ہی آپ کی نکھری اور بکھری شخصیت ظاہریااجاگر کرتی ہے ۔
گرم اور حبس زدہ ماحول میں آج نجم سیٹھی کا بیان بادصبا کی لطیف لہر محسوس ہوا۔نجم سیٹھی نے وزیراعظم نواز شریف اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو 23 فروری کو ہونیوالے پی ایس ایل کا فائنل میچ دیکھنے کی دعوت دی۔ ان کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کو پی سی بی کے پیٹرن ان چیف ہونے اور عمران خان کو ورلڈ کپ جیتنے والی قومی فاتح ٹیم کے کپتان کی حیثیت سے دعوت دی گئی ہے اس لئے شائقین سیاست کو ایک طرف رکھتے ہوئے صرف کرکٹ کو دیکھیں۔
نواز شریف اور عمران خان کو دبئی ضرور جانا چاہیے‘ عمران خان یہ نہ سمجھیں وہ نواز شریف کے ساتھ بیٹھیں گے تو وہ ہپناٹائز کر کے اپنا گرویدہ اور اپنی پالیسیوں کا شیدا بنا لیں گے۔ عمران نے اے پی ایس میں دہشتگردوں کی طرف سے تین سو بچوں کو خاک اور خون میں ملانے کے بعد دھرنا ختم کیا اور نواز شریف سے ہاتھ ملایا تھا۔ صرف خونیں واقعات پر ہی ہاتھ ملانے کو وطیرہ نہ بنائیں۔ مہربانی فرمائیں، آپ کی کپتانی میں پاکستان نے اب تک واحد ورلڈ کپ جیتا ہے۔ اسی ناطے آپ کو بلایا گیاسو ضرور جائیں۔