عبرت آ میز ،سبق آموز

ویسے تو یہ دنیا ہے، یہاں ہر کوئی اپنی عبرت کی صلیب پر لٹکا ہوا¿ نظر آتا ہے۔ لیکن حکمِ اذاں بھی ہے اس لئے بات کرتے رہنا چاہئے۔ ابھی حال ہی میں طیبہ نامی بچی پر مبینہ تشدد کا واقعہ پیش آیا تو میڈیا نے اس پر کافی توجہ دی۔ سوچا جائے تو تشدد معاشرے میں کو ئی نئی بات نہیں ہے۔ انسان خیر وشر کا پتلا ہے۔ خیر وشر کا تصادم ازل سے چلتا آرہا ہے اور رہتی دنیا تک یہ بھی رہےگا لیکن تشدد کے خلاف آواز اٹھانا اسے روکنے کی کوشش کرنا خیرکی قوتوں کا بھی لازمی فرض ہے۔میری نظر میں طیبہ کو تو انصاف مل گیا۔ وہ اپنے والدین اور دیگر افراد کے ستم سے نجات پاکر ایک نسبتاً محفوظ مقام تک پہنچ گئی اور فی الحال راوی چین لکھتا ہے۔ لیکن معاشرے میں تشدد آمیز رویوں کا مس¿لہ موجود ہے۔اس کا تدارک کرنے کی کوشش اس لئے ترک نہیں کرنی چاہئے کہ چونکہ شر ختم نہیںہو سکتا اس لئے اسے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ شر کے خلاف آواز اٹھاتے رہنا بھی انسانیت اور خیر کا تقاضا ہے۔ تشدد صرف یہی نہیں کہ کہ کسی کو جسمانی تکلیف دی جائے۔ کسی پر کسی نوعیت کا ناروا بوجھ بھی تشدد ہے۔ جب ایک عورت چند معصوم بچوں کے ساتھ سرد یا گرم موسم میں سڑک یا چوراہے پر بیٹھی بھیک مانگتی ہے تو یہ بھی بچوں پر تشدد ہی ہے۔شدید سردی میں رات گئے سڑکوں پر چھوٹے بچوں کا اخبار، پھولوں کے گجرے یا ابلے انڈے بیچنا بھی تشدد ہی ہے، مگر ہم اس کو تشدد نہیں سمجھتے ہم نے اس تشدد کو روزانہ کا معمول سمجھ کر قبول کر لیا ہے۔ تشدد کی ایک قسم اور بھی ہے یہ تشدد ہم خود اپنے اوپر کرتے ہیں ، یہ اس وقت ہوتا ہے جب ہماری زبان اور ہاتھ ہمارے قابو میں نہیں رہتے توہم ان کی ذد میں آ جاتے ہیں۔ یہاں مجھے ایک انگریزی نظم یاد آگئی۔ ۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک شکاری کسی جنگل میں شکار کھیل رہا تھا کہ اچانک ایک کھوپری اس کے پیر سے آ ٹکرائی۔۔ اچانک کھوپری نے بولنا شروع کردیا۔ شکاری یہ دیکھ پر بہت حیران ہوا¿ اور اس سے باتیں کرنے لگا۔شکاری نے سوال کیا اے کھوپری تو کبھی چلتا پھرتا انسان تھاتجھے کس نے اس حال تک پہنچایا اور تو یہاںکیسے آیا۔ مگر کھوپری نے اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور جنگل مین غائب ہو گئی یہ ایک عجیب و غریب واقعہ تھا ۔شاہی شکاری سے رہا نہ گیا، سیدھا بادشاہ سلامت کے دربار میں پہنچا اور جا کر سارا واقعہ اس کے گوش گزار کر دیا ۔ بادشاہ نے اس کی بات پر یقین نہ کیا اور بولا ۔ کیا بکتا ہے ۔۔ شکاری بولا حضور میں سچ کہ رہا ہوں ۔ بادشہ نے جلاد کو حکم دیا کہ اس شکاری کے ساتھ جاو¿ اگر یہ سچ ہے تو اس کو انعام ملے گا اور
اگر کھوپری نہ ملے تو اس کا سر وہیں قلم کر آنا۔۔ یہ حکم لے کر دونوں جنگل پہنچ گئے۔ اور کھوپری کی تلاش شروع کر دی ۔ مگر کھوپری کہیں نظر نہیں آئی۔ شکاری بہت پریشان ہوا¿ کھوپری کو پکا پکار کر تھک گیا۔ مایوس ہو کر اس نے سر جھکا دیا۔ اور جلاد نے اس کا سر قلم کر دیا۔ کچھ دنوں کا بعد اس کا سر بھی کھوپری میں بدل گیا ۔ تب وہ کھوپری پھر نمو دار ہوئی اور شکاری کی کھوپری سے مخاطب ہو کر کہنے لگی، بتا تجھے اس حال میں کس نے پہنچا یا اور تجھے یہاں کون لایا۔ شکاری کی کھوپری بولی، میری زبان مجھے یہاں لے آئی ۔ نہ میں تمہارا ذکر بادشاہ سے کرتا اور نہ یوں مرتا،۔ کھوپری یہ جواب سن کر کھلکھلا کر ہنسی اور غائب ہو گئی۔ تو میرے پیارے قارئین یہ زبان بہت بڑی نعمت ہے۔ اسی زبان کی وجہ سے ہم دوسرے جانداروں پر فوقئیت رکھتے ہیں مگر اسی زبان کے ہاتھوں ہم مصیبت میں بھی پھنس جاتے ہیں ۔ اور یہی حال ہمارے ہاتھ کا بھی ہے۔ اسی لئے تویہ فرمان ہے کہ تم میںبہتر وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے محفوظ رہیں۔ جس گھر میں مبینہ طور پر ایک بچی پر تشدد ہوا¿ اس کے گھر والے بھی اذیت سے بچ نہیں سکے۔اس واقعے میں بہت سبق اور بہت عبرت ہے دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کے لئے ۔ او راب بات کرنا چاہتا ہوں دہشت گردی کے حواے سے۔ لاہور میں کل آگ اور خون کی ہولی کھیلی گئی۔بے شمار لوگ اس واقعے پر غمزدہ ہیں لیکن کیا وہ بھی غمزدہ ہیں جو ان کھلاڑیوں کے حق میں زورِ قلم اور زورِ زبان استعمال کرتے ہیں کیا انکو بھی کوئی دکھ پہنچا ہے جوان کو قوم کے ناراض بیٹے کہ کر پکارتے ہیں ۔۔۔مرنے والوں میں ایک لڑکی فاطمہ بھی تھی جو اپنے بھائی کے ساتھ خریداری کے لئے گھر سے نکلی تھی جسکی آنکھوں میں زندگی کے کچھ حسین خواب تھے مگر وہ خواب بارود میں جل کر راکھ ہوگئے۔کیا اس لڑکی کی المناک موت پرانہیں بھی دکھ ہوا¿ جوان ظالمان کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ ہم سے دور ہیں لیکن ہمارے دل توانہیں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ کیا انکو بھی رنج ہوا¿ جو قاتلوں کے مرشدوں کے بارے میں حسن ِ ظن رکھتے ہیں کہ انکی حب الوطنی پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ کیا وہ بھی رنجیدہ ہیں جو حافظ سعید کی گرفتاری سے بہت دل گرفتہ ہیں اور کیا ان کی آنکھ سے بھی کوئی آنسو چھلکا جو یہ کہتے رہتے ہیں کہ طالبان کے طریقِ کار سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر کہتے تو ٹھیک ہیں۔نہیں نہیں بھلا یہ لوگ طالبان کی اس عظیم اور مقدس کوشش پر کیسے ناراض ہو سکتے ہیں کہ یہ لوگ تو اپنی جان دے کر ان کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ۔۔فاطمہ کوئی وی آئی پی نہیں تھی وہ صرف ایک ووٹر تھی یعنی وی ّئی پی کو اقتدار کی کرسی پر بٹھانے والی سیڑھی کا ایک قدم۔وہ ایک گمنام چہرہ تھی اپنے جیسے کروڑوں چہروں کی طرح ،مگر اے فاطمہِ وقت کا غبار تیری موت پر مرثیہ ضرور لکھے گا۔ تھورا سا میں بھی زبانی جمع خرچ کرتا ہوں تو سن۔۔۔ تونے جان کا نذرانہ دے کر ثابت کیا ہے کہ ہم دہشت گردوں کے سامنے جھکے نہیں ۔ ہم دہشت گردوں کے خلاف جنگ جیت چکے ہیں ۔ کبھی روزحملے ہوتے تھے۔اب تو کبھی کبھی ہوتے ہیں ۔
دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنا ہمارا عزمَ صمیم ہے۔لیجیے دل کا بوجھ کچھ ہلکا ہوا¿ تو مجھے یاد آیا کہ کہ فونکس کمپنی کی کچھ ملازمیں نے اپنی کمپنی سے یہ شکوہ کیا ہے کہ گیارہ سالہ ملازمت کے بعد کمپنی نے انہیں فارغ کر دیا اور کوئی بینیفٹ نہیں دیا جو کہ ان کا حق تھا۔ حقدار کو اس حق ملنا چاہئے۔کسی کا حق مارنا نہ کسی فرد کے لئے اچھا ہے نہ کسی ادارے کے لئے۔قانون کے مطابق اگر ان ملازمیں کا مطالبہ بنتا ہے تو اس پر ہمدردانہ غور ضرور ہونا چاہئے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...