زندہ رہنا ہے تو آزادی کے ساتھ رہنا چاہئے۔ آزادی کا مفہوم بہت واضح ہے کہ خوف و ہراس سے امن ہو‘ جان و مال و عزت کی حفاظت کا یقین ہو اور زندگی کے اعلیٰ مقاصد پیش نظر ہوں۔
وہ لوگ جو آزادی کی حقیقت اور سچائی سے بے خبر ہیں‘ ان کے نزدیک تجارت اور انسانیت ایک ہی پلڑے میں رکھی جاتی ہے۔ جسے وہ منافع بخش زندگی کا نام دیتے ہیں۔ ان کا منافع انسانی عزت فروخت کر کے حاصل ہو۔ کسی کی جان خطرے میں ڈال کر اپنے پیسے کھرے کرنا ہوں یا ظلم و زیادتی سے کسی کے مال پر قبضہ جمانا ہو۔ وہ اسے اپنی آزاد زندگی سے تعبیر کرتے ہیں۔
چور‘ ڈاکو‘ لٹیرے‘ سازش کار اور شیطان صفات سے مرصع افراد ایسے ہی چلن کو آزادی بتاتے ہیں۔ اپنے ہی جیسے انسانوں کو اپنی نام نہاد اور مادر پدر آزادی کے تحفظ کے لئے اپنی خواہشات کی رسیوں میں جکڑنا ہی ان کے نزدیک زندگی اور خوشحال زندگی کا کامیاب تصور ہے۔
لوگ شور مچائیں تو مچانے دو‘ احتجاج کریں تو آنکھیں دکھا دو۔ اپنی جان پر پڑے تو مسلسل جھوٹ بول کر اپنی معصومیت کا پروپیگنڈہ کر کے نیک نامی حاصل کرنا ان کے چشم ابرو کا کمال ہے۔
پاکستان کی روزانہ کی بدلتی ہوئی سیاسی‘ سماجی اور معاشیاتی صورتحال پر رونا اور مسلسل رونا ہی نظر آتا ہے۔اصحاب درد کے ہاں آواز و فغاں بلند کرنا اپنی مجبوری کو ظاہر کرنا ہوتا ہے۔ ہزاروں اہل دل‘ سینکڑوں حق گو دانشور اور بے شمار صاحبان فکر وطن کی آبرو بچانے کی دہائی دیتے ہیں۔ سچ کا اظہار کرتے ہیں۔ حق کو بلند کرتے ہیں لیکن آواز اپنے سامعین تک پہنچتے پہنچتے اتنی کمزور ہو جاتی ہے کہ انہیں کچھ سمجھ نہیں آتی کیونکہ ملکی میڈیا پر قابض بھتہ خور اور مراعات پرست قاتلان دانش اور تاجران ضمیر اس حقیقت اور تلخ‘ ناقابل قبول حقیقت کو اپنا سرمایہ زندگی بنا چکے ہیں کہ انہیں حکمرانوں کی طرز حیات پر اپنے جذبات کو فروخت کرنا ہے۔ حکمران اپنی نالائق اور بے صلاحیت اولاد کی خواہشات کو دوام دینے کا جو طرز اختیار کر چکے ہیں انہیں یاد دلانا مشکل ترین ہو گیا ہے کہ یہ ملک غریب مفلوک الحال مسلمانوں کی خیر و بھلائی کے لئے وجود میں آیا تھا۔ یہاں پر انسانی زندگی کی حقیقی آزادی کے لئے جبر و استبداد سے آزاد معاشرہ قائم کرنے کے لئے قربانیاں دی گئی تھیں اور امن و سلامتی کا گہوارہ بنانے کے لئے لاکھوں افراد نے اپنے وطن کو خیرباد کہہ کر تازہ ولولوں کے ساتھ نئے دیس کو اپنی تمناؤں کا مسکن بنایا تھا۔ لیکن کسی نے اس جانب توجہ کی بھی ہے تو شیطانی صفات کا پیکر ایک گروہ ہے جو رنگ بدل بدل آزادیٔ فکر‘ آزادی ضمیر اور آزادیٔ وجود پر ڈاکے ڈالتا ہے اور پھر منافقت کا لباس پہن کر قومی سلامتی کے نعرے لگاتا ہے۔ روزانہ کی تازہ خبریں چلّا چلّا کر بیدار کر رہی ہیں کہ ملک کی سلامتی خطرے میں‘ ملک کی معیشت کو خطرناک دیمک لگ گئی ہے۔ لوگوں کو دو وقت کا کھانا مشکل سے میسر آتا ہے‘ باعزت خواتین کی عصمت دری کا چلن قوت والے ڈاکوؤں کی سرپرستی میں ہو رہا ہے۔ لیکن جوں نہیں رینگتی ہے۔ ان تماشہ بینوں کے کان پر جو قومی خزانے پر سانپ بن کر بیٹھے ہیں اور اپنی ذمہ داریوں سے پہلوتہی برتتے ہیں۔ کھیلتے ہیں۔ دویہ فروشی کی بین الاقوامی کمپنیوں نے پہلے اپنے پنجے گاڑنے کے لئے متعلقہ ذمہ داروں کو پوری طرح سے اپنے قابو میں کیا۔ روکنے والوں نے پست ہمتی اور کمزور روایت کا بہانہ بنا کر ان انسانیت کش ادویہ ساز کمپنیوں کو دواؤں کے نرخ بڑھانے کے لئے آزاد راستہ دیا‘ پھر ایک نیا ماحول پیدا ہوا تو عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے نیا انداز ستم اختیار کیا اور شکنجہ کسنے کے لئے اہتمام کیا تو پھر ردعمل نہایت شدید سامنے آیا۔ سازش کاروں نے دوا فروشوں کو سڑکوں پر لا دھکیلا۔سکیورٹی کے انتظامات تو پہلے ہی سے کم پڑتے ہیں۔ زیادہ سکیورٹی بہت سے گھروں کی حفاظت پر مامور ہے۔ سڑکیں بند ہوں تو عوام کی پریشانی بڑھ جاتی ہے۔ لوگ سڑک پر احتجاج کرنے والوں کو کوستے ہیں۔ لیکن وہ ان لوگوں سے بے خبر ہوتے ہیں جو احتجاج کا سبب بنتے ہیں۔
رشوت خور ڈنڈے والوں نے ایک شطرنج بچھائی ہے۔ جس کی ہر گوٹی کرپشن کے محلول سے بنی ہے اور اوپر سے خوشنما رنگ و روغن نے اس میں دلچسپی کا سامان کر دیا ہے۔ اسلئے اب برے کو برا کہنا‘ برائی اور بے وقوفی کہلاتی ہے۔ جو لوگ برائی کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں‘ اپنے حب الوطنی کے جذبات کو عمل میں ڈھال کر قومی سلامتی کے تحفظ کے لئے جدوجہد کرتے ہیں‘ وہی قربانی کے کام آتے ہیں۔ یہ مسلسل ہو رہا ہے اور مسلسل ہوتا رہے گا‘ سرحدوں پر فوج کے جوان اپنے لہو سے چراغ آزادی کو روشن رکھنے کے لئے پروانہ وار نثار ہوتے رہیں گے۔اندرون وطن پولیس کے ایماندار اور فرض شناس افراد آزادیٔ وطن کی بقا کے لئے سڑکوں پر جام شہادت نوش کرتے رہیں گے۔
مذمتی بیان اور تعزیتی بیانات کے طے شدہ الفاظ پر مبنی پیغامات ہوا میں پھیلتے رہیں۔ انسانوں کی آزادی اور حیوانوں کی آزادی میں مستقل جنگ جاری رہے گی۔
اے وطن میرے مجبور وطن
Feb 17, 2017