کم از کم پنشن حکومتی مقررکردہ اجرت کے مطابق کی جائے

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے پنشنرز کے معاملے میں اٹارنی جنرل اور ڈائریکٹر جنرل ای او بی آئی کو طلب کر لیا ہے۔ عدالت نے وضاحت مانگی ہے کہ غریب ورکرز کی پنشن میں کس حد تک اضافہ ممکن ہے؟ محترم چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ ورکرز کو ایک لاکھ روپے کی پنشن دی جائے لیکن رقم اتنی ضرور ہو جس سے گزر اوقات ممکن ہو۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے محنت کش بزرگ شہریوں کیلئے کچھ کرے۔ شنید ہے کہ پنشن کی کل رقم ماہوار پانچ ہزار دو سو پچاس روپے ادا کی جارہی ہے۔ پنشنرز کا کہنا بجا ہے کہ اتنے کم پیسوں میں تو علاج دوا ہی ممکن نہیں پھر گزر اوقات کیسے کی جائے۔ عمر رسیدگی کے باعث بزرگ پنشنرز کوئی دوسرا کام کرنے کے بھی لائق نہیں رہتے۔ ایسے میں گزراوقات کیلئے انہیں پنشن کے نام پر کم از کم اتنی رقم ادا کی جائے کہ علاج معالجہ سمیت گھر کا کچن ہی چل سکے۔ ان بزرگ شہریوں نے تمام عمر اپنے ملک اور اپنے اداروں کو مستحکم بنانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ عمر کے اس حصہ میں جب وہ خود کوئی کام بھی نہیں کر سکتے تو حکومت کا یہ فرض بنتا ہے کہ ان بزرگ شہریوں کے (نان شبینہ) کیلئے مناسب بندوبست کرے، ان کی پنشن ان کی تنخواہ کے برابر یا حکومت کی مقررکردہ کم از کم اجرت جو پندرہ ہزار ہے وہ مقرر کر دی جائے۔محترم چیف جسٹس صاحب کا یہ اقدام اور پنشنرز میں دلچسپی سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ ملک بھر میں ای او بی آئی کے پنشنرز جن کی تعداد بیس لاکھ کے قریب ہے۔ یہ پنشنرز کئی پرائیویٹ اداروں میں چالیس سال سروس کے بعد ساٹھ سال کی عمر میں پہنچتے ہیں تو انہیں پنشن شروع ہوتی ہے۔ فطری طور پر اس عمر میں ہر شخص کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہو جاتا ہے اور صحت گرنا شروع ہو جاتی ہے۔ شوگر اور بلڈپریشر کی تکلیف شروع ہی اس عمر میں ہوتی ہے جس کیلئے کم از کم پانچ ہزار ماہوار تو صرف ادویات کیلئے درکار ہوتا ہے۔ اگر بچے بچوں کی شادیاں کرنی ہوں تو اس صورت میں اپنا نظام زندگی کیسے چلائیں۔یہ ایک عجیب حقیقت ہے کہ مسلم لیگ کی حکومت میں کبھی بھی ای او بی آئی کے پنشنرز کی پنشن میں اضافہ نہیں کیا گیا جبکہ ہر سال بجٹ میں سرکاری ملازمین کی پنشن میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ یہ منطق سمجھ سے بالاتر ہے کہ تمام پنشنرز کو ایک نظر سے کیوں نہیں دیکھا جاتا۔ گزشتہ سال بھی سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد پنشن تین ہزار چھ سے پانچ ہزار دو سو پچاس روپے کم از کم کی گئی تھی۔ وزیر خزانہ نے تو اپنی روایت برقرار رکھی تھی۔ اب بھی یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ موجودہ چیف جسٹس صاحب ان غریبوں کیلئے حکومت سے انصاف دلانے میں کامیاب ہو جائینگے۔یہ باعث حیرت ہے کہ 2013ء کے انتخابات کے بعد دو مرتبہ ارکان پارلیمنٹ نے اپنی تنخواہوں میں اضافہ کر لیا ہے۔ اس معاملہ پر ارکان پارلیمنٹ کے تمام اختلافات ختم ہو جاتے ہیں۔ چاہے وہ مسلم لیگ ہو، پیپلزپارٹی ہو یا پاکستان تحریک انصاف یا دینی جماعتیں، سب متفق ہو جاتی ہیں چاہے وہ اسمبلیوں کا بائیکاٹ کریں اور کئی کئی ماہ بعد جائیں تنخواہیں وصول کرنے کا بائیکاٹ نہیں کرتے۔ حکمران جماعت کو چاہیے کہ ملک بھر کے تمام طبقوں کیساتھ یکساں سلوک کی پالیسی بنائے۔ ملک بھر میں پھیلے ہوئے بیس لاکھ پنشنرز بھی انہی کی ذمہ داری ہیں۔ مہنگائی یا مسائل صرف اراکین پارلیمنٹ کیلئے ہی نہیں بلکہ ملک کے بیس کروڑ عوام اس سے متاثر ہیں۔ حکومت اب انتخابات میں جارہی ہے تو اسے چاہیے کہ ان بزرگوں کی دعائیں لیکر عوام کے پاس جائیں۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کو بخوبی علم ہے کہ ای او بی آئی کے اعلیٰ حکام نے کس طرح اربوں روپے کی لوٹ مار کی ہے جن کیخلاف ابھی تک مقدمات بھی ہیں اگر وہ لوٹ مار کے ذریعہ اس ادارہ کو لوٹ سکتے ہیں تو چیف جسٹس صاحب خود پنشنرز کی پنشن مقرر کر سکتے ہیں جتنے میں وہ اچھے طریقہ سے بقایا زندگی گزار سکتے ہیں ورنہ بقول حضرت علی کرم اللہ وجہہؓ ’’کوئی بھی معاشرہ کفر کیساتھ تو رہ سکتا ہے پر ناانصافی کیساتھ نہیں رہ سکتا‘‘۔

ای پیپر دی نیشن