نیب ایف بی آر کے چیئرمیںریکاڈ سمیت منگل کو طلب سخت سوالات ہونگے :سپریم کورٹ

اسلام آباد (این این آئی+ بی بی سی) سپریم کورٹ آف پاکستان نے پانامہ پیپرز کیس میں چیئرمین نیب اور چیئرمین ایف بی آر کو 21فروری کو ریکارڈ سمیت پیش ہونے کی ہدایت کی ہے جبکہ عدالت عظمیٰ کے سینئر ترین جج مسٹر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ چیئرمین ایف بی آر آئندہ سماعت پر بتائیں اب تک کیا کارروائی کی؟ کتنے افراد کو نوٹسز بھجوائے گئے؟، کیس سے متعلق تیاری کرکے آئیں، ہم سوالات پوچھیں گے۔ سلمان اکرم راجا نے دلائل دئیے کہ مریم نواز کے بینیفشل مالک ہونے کی جعلی دستاویز عدالت میں جمع کرائی گئی، بیئرر سرٹیفکیٹ کی منسوخی سے ان کی بطور شیئر ہولڈرز حیثیت ختم ہوگئی، موزیک فونسیکا نے اپنی دستاویز سے لاتعلقی ظاہر کی تھی۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دئیے کہ یہ دستاویز آخر آئی کہاں سے؟ حسین نواز کے پاس لندن میں مہنگی جائیدادوں کےلئے سرمایہ کاری کو بھی دیکھنا ہے، مریم نواز بطور نمائندہ حسین نواز کام کرتی تھیں تو اسے بھی دیکھنا ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ضابطہ فوجداری کے تحت شواہد نہ ہوں تو ملزم کا موقف تسلیم کیا جاتا ہے، جب کوئی جرم نہیں ہوا تو کمشن بنانے کا بھی جواز نہیں۔ اصغر خان کیس میں بھی عدالت نے متعلقہ اداروں کو تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اصغر خان کیس میں عدالت نے پہلے ڈکلیئریشن دیا تھا، اصغر خان کیس کا کریمنل حصہ تحقیقات کےلئے بھجوایا گیا تھا۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عدالت نے ڈکلیئریشن اعترافی بیانات پر دیا تھا۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ یہ بات ہضم کرنا مشکل ہے کہ اتنی قیمتی جائیداد لینے والا اس کا کوئی ریکارڈ ہی نہ رکھے۔ سلمان اکرم نے کہا کہ اگر کوئی ریکارڈ نہیں رکھا گیا تو اس میں جرم کیا ہے؟ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ 184/3کے مقدمے میں عدالت کسی کو مجرم یا بے قصور قرار نہیں دے سکتی، فوجداری جرم کی تحقیقات یا ٹرائل متعلقہ فورم پر ہوتا ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سلمان اکرم راجہ سے استفسار کیا کہ اگر ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ آپکی وضاحت دیانتدارانہ نہیں تو کیا ہو گا؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ قطر میں کاروبار کی دستاویز نہیں، جائیداد سے متعلق فنڈز کی وضاحت بھی اطمینان بخش نہیں۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عدالت ہماری وضاحت مسترد کر دے تب بھی پہلے فریق کی بات تسلیم نہیں کی جا سکتی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ دادا دنیا میں نہیں رہے، بچے کما نہیں رہے، کلثوم نواز گھریلو خاتون ہیں، ایسے میں صرف ایک ہی شخص بچ جاتا ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل جاری رکھے اور اس بات پر زور دیا کہ عدالت اس معاملے میں کمشن بنا سکتی ہے۔ جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ عدالت کمشن بناسکتی ہے یا معاملہ متعلقہ اداروں کو بھی بھیج سکتی ہے تاہم انہوں نے بعض افراد کی جانب سے اداروں کے کام نہ کرنے کے بیانات کی بھی نشاندہی کی اور سوال کیا کہ اس صورت میں اب عدالت کیا کرے؟ اس موقع پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ عدالت کا وقت ضائع کیا جارہا ہے، اب تک کوئی کام نہیں ہوا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ خود سے کمشن تشکیل دے کر انکوائری نہیں کر سکتی۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ کمشن کا کام شواہد اکٹھے کرنا ہے جس پر سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ کمشن کسی شخص کو سزا یا جزا نہیں دے سکتا، وہ صرف انکوائری کے نتیجے میں اپنی رائے دے سکتا ہے جبکہ فوجداری معاملے کا ٹرائل کمشن نہیں کر سکتا۔ جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہم یہاں شواہد ریکارڈ نہیں کر رہے، مقدمے کی نوعیت کیا ہے اس کا فیصلہ آخر میں کریں گے۔ آصف سعید کھوسہ نے سلمان اکرم راجہ سے سوال کیا کہ کیا دستاویزات نہ دینا ا±ن کی حکمت عملی کا حصہ ہے؟ جس کا جواب سلمان اکرم راجہ نے نفی میں دیا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سلمان اکرم راجہ سے استفسار کیا کہ آپ کہتے ہیں کہ ہمیں سارا سرمایہ قطری نے دیا، اتنے بڑے کاروبار اور لین دین کا آپ نے کوئی حساب نہیں رکھا۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عدالت کو دیکھنا ہے کہ کیا یہ جرم ہے یا ریکارڈ نہ رکھنے میں کوئی لاقانونیت ہے اور اس حوالے سے قانون کیا کہتا ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ کے کیس میں دو باتیں ہو سکتی ہیں، یا ہم قطری والا موقف تسلیم کریں یا نہ کریں، آپ کے پاس ایک یہ ہی موقف ہے اور دستاویزات نہیں ہیں۔ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ میرے پاس جو دستاویزات تھیں پیش کر دیں، اب اگر آپ قطری والا موقف تسلیم نہیں کرتے تو پھر درخواست گزار کو ثابت کرنا ہے کہ ہم نے کیا جرم کیا ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جواب دیا کہ اسی لیے تو میں کہہ رہا ہوں کہ آپ جوا کھیل رہے ہیں اور جوا کسی کے حق میں بھی جا سکتا ہے۔ اس موقع پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ مقدمہ صرف یہ ہے کہ مریم نواز جائیداد کی بینیفیشل ٹرسٹی ہیں یا نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دوسرا مقدمہ سراج الحق کا ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ کرپشن کو نظر انداز نہ کیا جائے اور ملوث افراد کو نا اہل قرار دیا جائے۔ جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ اگر وہ ثابت کرتے ہیں تو ٹھیک، ورنہ سراج الحق کی درخواست سیاسی رقابت ہی سمجھی جائےگی۔ سلمان اکرم راجہ نے دلائل کے دوران موزیک والی دستاویزات فراڈ کرکے تیار کرنے کا بھی خدشہ ظاہر کیا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ موزیک نے اپنی دستاویز سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے جبکہ وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز نے دستاویز پر دستخط سے انکار کیا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے سوال کیا کہ یہ دستاویز کہاں سے آئی؟ جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ مریم نواز کے بینیفیشل مالک ہونے کی جعلی دستاویز عدالت میں جمع کرائی گئی ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ 184/3 کے تحت مقدمے میں عدالت متنازعہ حقائق میں نہیں جا سکتی، پی ٹی آئی نے مزید800 صفحات جمع کروائے ہیں جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ آپ بھی اس کے جواب میں سینکڑوں صفحات جمع کروا دیں، اتنی دستاویزات آئیں گی تو کیس کیسے ختم ہو گا، کہیں یہ سازش تو نہیں کہ کیس مکمل ہی نہ ہو۔ کیس کی سماعت منگل21 فروری تک کےلئے ملتوی کردی گئی۔ اے این این کے مطابق سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ چیئرمین نیب تیاری کر کے آئیں سخت سوال کریں گے۔ جسٹس کھوسہ نے کہا شواہد ریکارڈ کرنے کا مرحلہ ابھی نہیں آیا، اداروں کو حکم دیں یا خود تحقیقات کریں اس نکتے پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔ بی بی سی کے مطابق عدالت نے نیب کے پراسیکیوٹر جنرل وقاص قدیر ڈار کو حکم دیا ہے کہ وہ 1999 میں ختم ہونے والے دو مقدمات اور 2014 میں حدیبیہ پیپرز ملز کے مقدمے میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی بریت سے متعلق ریفری جج کے فیصلے کی تفصیلات پڑھ کر آئیں۔ یاد رہے کہ سابق وزیر اعظم بےنظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں ایف آئی اے نے شریف برادران کے خلاف مقدمات دائر کیے تھے۔ سابق وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک اس وقت ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر تعینات تھے۔ 1993 میں درج ہونے والے مقدمات کو 1999 میں ختم کر دیا گیا تھا تاہم نواز شریف کی حکومت ختم ہونے کے بعد سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے 2001 میں انہی مقدمات کی روشنی میں میاں نواز شریف کے خلاف حدیبیہ پیپر ملز کا ریفرنس دائر کیا تھا۔ اسی مقدمے میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا اعترافی بیان بھی سامنے آیا تھا۔ بعدازاں ا±ن کا کہنا تھا کہ ا±ن سے یہ بیان زبردستی لیا گیا تھا۔ پاناما لیکس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران نیب کے پراسیکیوٹر جنرل نے عدالت کو بتایا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے اسحاق ڈار کی بریت کے فیصلے کو چیلنج نہ کرنے کا فیصلہ نیب کے فل بورڈ نے کیا تھا۔

ای پیپر دی نیشن