بعض لوگ دعائوں پر گزارہ کرتے ہیں جبکہ بعض دوائوں کو حرزِ جاں گردانتے ہیں۔ دعا کا تعلق روحانیت اور دوا کا جسمانیت کے ساتھ تعلق ہے۔ بلاشبہ الفاظ میں تاثیر ہے۔ جب ہم کسی شخص کی تعریف کرتے ہیں تو اس پر خوشی کے اثرات مرتب ہوتے ہیں، کسی کی برائی بیان کی جائے یا کسی کی سرزنش کی جائے تو وہ برا مانتا ہے۔ یہ تاثراتِ انسانی دراصل اثرات الفاظ ہیں۔ الفاظ کی تاثیر اذہان اور ارواح پر ہوتی ہے۔ اس امر کے برعکس دوا جسمانی بیماریوں کا علاج ہے۔ گویا روح کیلئے دعا اور جسم کے لئے دوا لازمی ہے۔ انسان جسم و روح کے اتصال کا نام ہے۔ حضرت عیسیٰ ؑ چند الفاظ کے استعمال سے نابینا کو بینائی عطا کرتے اور انھوں نے دعا سے لوگوں کو جذام کے مرض سے نجات دلا دی۔ تاثیرِ الفاظ سے مردہ زندہ کر دیا لیکن یہ تاثیر الفاظ بہ اذن اللہ تھی۔ یہ معجزات تھے جو صرف اور صرف عطیہ پروردگار تھے۔ قرآن مجید کے الفاظ میں بھی معجزانہ تاثیر ہے۔ یہ کلام خدا ہے۔ سراسر معجزہ ہے۔ ہم میں کوئی نہ عیسیٰؑ ہے اور نہ محمدؐ جو کہ لفظ سے علاج کر دے۔ بعض لوگ صدیوں سے تعویذ لکھتے آ رہے ہیں۔ قرآنی آیات سے بیماریوں کا علاج کرنے کے دعویدار ہیں۔ انھوں نے قرآنی آیات کا کاروبار کھول رکھا ہے جبکہ قرآنی آیات تزکیہ نفس اور مجادلئہ زندگی کے لئے نازل ہوئی ہیں۔ یہ کتابِ زندہ، کتابِِ ہدایت و نصیحت ہے۔ میرے جاننے والے ایک بڑے نامی گرامی روحانی پیر صاحب جو مریدوں کو ہر بیماروں کو ہر بیماری کا تعویذ لکھ دیتے تھے، اپنا علاج ڈاکٹر سے کرواتے اور دعا کی بجائے دوا کا سہارا لیتے۔ ایسی صورتحال میں مجھے یہ یقین واثق حاصل ہوا کہ دعا و دوا لازم و ملزوم ہیں۔ میرا شعر ہے
دعا کے ساتھ دوا کو بھی لازمی جانو
جو بعدِ مرگ ملے اس کو زندگی جانو
اسلام میں نظامِ صلوۃ ’’ عبادات و اعتقادات اور نظام زکواۃ‘‘ عملی زندگی کا نظام ہے۔ یہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا دین ہے۔ یہودیت، عیسائیت، ہندومت اور بدھ مت میں مذہبیات اور روحانیت پر جبکہ کمیونزم اور مارکسزم زندگی کے مسائل پر زور دیتے ہیں۔ ان کے عین برعکس اسلام عبادات اور معاملات کا دین ہے۔ سورۃ الفجر، سورۃ البلد اور سورۃ الیل میں غریبوں، مسکینوں اور غلاموں کی فلاح و بہبود کو باعث نجات قرار دیا گیا ہے۔ اسلام کی روح اور نظام کو سورۃ الیل کی آیت نمبر 5 میں یوں بیان کیا گیا ہے ’’ پس جس نے (اپنا مال اللہ کی راہ میں ) دیا اور پرہیزگاری اختیار کی‘‘ گویا عطا و تقویٰ باعثِ نجات ہے۔ عطا کا تعلق نظام معاشیات اور تقویٰ کا تعلق نظام اخلاقیات سے ہے۔ دعا اور دوا کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ مولویوں اور پیروں کے تعویذوں سے جراثیم نہیں مرتے ’’ دوا کھائو اور دعا کرو‘‘ یہی سائنسی اور روحانی نظام ہے۔ اسلام اور آمریت دو متضاد نظام ہیں۔ خلافت راشدہ کے بعد مسلمانوں میں آمریت و ملوکیت رواج پذیر ہوئیں۔ علامہ جلال الدین سیوطی کی کتاب ’’خلفائے اسلامہ‘‘ اور مولانا مودودی کی تصنیت ’’ خلافت و ملوکیت‘‘ اس موضوع پر جامع کتابیں ہیں۔ اسلام میں مشاورت ہے۔ نظام خلافت ہے جسے آج اجتہادی نقطہ نظر سے ’’ اسلامی جمہوریت‘‘ کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں پیغمبر اسلام کو پیغام رساں کہا گیا۔ آپ آمر و جابر نہیں تھے۔ آپ داروغہ نہیں تھے۔ سورۃ الغاشیہ میں ارشاد ربانی ہے ’’ انما انت مذکر‘‘ آپ تو ناصح ہیں۔ پھر ارشاد ہوا ’’لست علیگم بمعیط‘‘ آپ ان پر جابر و قاہر نہیں ہیں۔ تاریخ اسلام شاہد ہے کہ پیغمبر اسلام نے ایک عام انسان کی طرح زندگی گزار دی۔ آپ رحیم و کریم تھے کیونکہ آپ صفات الہیہ پر عمل پیدا ہونے کو ہی ’’خیر البریہ‘‘ کی منزل سمجھتے تھے۔ آپ چھوٹوں اور بڑوں سے شفقت فرماتے اور ان کا احترام کرتے۔ اسلام انسانی حقوق کا محافظ ہے۔ افسوس صد افسوس ملوکیت اور ملائیت نے ’’ اسلام حقیقی‘‘ کو پسِ پشت ڈال کر ’’ اسلام استعماری‘‘ رائج کیا۔ میرا ایمان ہے کہ قرآن مجید کے انقلابی برنامہ کے قیام کا وقت آ گیا ہے اور علامہ اقبال کے افکار سے دنیائے اسلام میں انقلاب کی آمد آمد ہے۔ مایوسی کفر ہے۔ اسلامِ حقیقی نافذ ہو کر رہے گا۔ اولاد اور دولت کو قرآن مجید میں فتنہ بہ معنی آزمائش کہا گیا ہے۔ بڑے بڑے جابر و قاہر بادشاہوں کے محلات ان کی دنیاوی حشمت اور جاہ و جلال کے عکاس ہیں لیکن خوش قسمت ہیں وہ جن کو دوگز زمینِ قبر نصیب ہوئی۔ شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی کے محلات اس کے کچھ کام نہ آئے اور آج اس کی قبر مصر میں ہے جس پر کوئی فاتحہ پڑھنے والا بھی نہیں۔ شاہانِ ہند اکبر، جہانگیر اور اورنگزیب کی قبریں بے نام و نشان ہیں جبکہ اولیائے اللہ کی قبور زندہ و پائندہ ہیں۔ اللہ والے زندہ اور دنیا دار مردہ۔ بقول بہادر شاہ ظفر
کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لئے
دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں
دنیا کی بے ثباتی، حرصِ زور و زر اور حبِ محلات فلک بوس کا تذکرہ سورۃ الفجر میں ملتا ہے۔ انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ زر پرستی شیطنیت ہے، لعنت ہے۔ زر و زمین کے تنازعے اور نقاضے انسان کو خدا سے دور لے جاتے ہیں۔ انسانیت کی جگہ حیوانیت کو جنم دیتے ہیں۔ سورۃ الفجر کی چند آیات پر تفکر کیجئے اور عبرت حاصل کیجئے۔ ارشادِ ربانی ہے ’’ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے قومِ عاد کے ساتھ کیا کیا‘‘ یہ بڑے بڑے ستونوں والے محلات میں رہتے تھے۔ قومِ ثمود بھی وادی قری میں چٹانوں کو کاٹ کاٹ کر عالی شان مکانات بناتی رہتی تھی۔ اللہ نے ان کی شرکشی، تکبر، دنیا پرستی اور حرصِ زد کی بدولت ان پر عذاب نازل کیا۔ سورۃ الفجر میں ان لوگوں کی مذمت کی گئی جو زمین پر فساد پھیلاتے ہیں۔ مسکینوں اور محتاجوں کا نہ احترام کرتے ہیں اور نہ ان کے کھانے کا انتظام کرتے ہیں۔ وراثت کا سارا مال خود کھا جاتے ہیں۔ ارتکازِ دولت کرتے ہیں۔ ’’وتحبون المال حباً جماً‘‘ حب زر میں یہ لوگ اسیر ہیں اور قابلِ اعانت و مذمت گردانے گئے ہیں۔ سورۃ الفجر کی آیات کی روشنی میں اب ذرا دنیائے اسلام پر نظر دوڑائیں۔ شاہ و گدا کا تفاوت دیکھیں۔ امیر و غریب کے فرق کو پرکھیں۔ یتیموں، بیوائوں، غریبوں اور ناداروں کے حالات کا جائزہ لیں۔ کیا یہ اسلامی ریاستیں ہیں۔ یہ سرمایہ دارانہ ریاستیں ہیں جہاں سرمایہ داروں کی شاہی اور غریبوں کی تباہی ہے۔ پاکستان میں رشوت، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ اور لوٹ کھسوٹ عام ہے۔ زندگی ایک کہرام ہے۔ ایک تہمت ہے ایک الزام ہے۔ نسلِ نو حیران و پریشاں ہے۔ ہر شخص دولت سمیٹنے میں مصروف ہے۔ حلال و حرام کی تمیز ختم ہوئی۔ اہل زر ہی اہل زور ہیں۔ حکمرانوں اور سرمایہ داروں کے فلک بوسی محلات غریبوں کی کٹیائوں کا منہ چڑا رہے ہیں۔ کیا ہم امت محمدیؐ ہیں یا پھر عصر حاضر میں قومِ ثمود و عاد ہیں۔ غلام ہیں یا آزاد ہیں۔ !