لندن (بی بی سی) ایک برطانوی عدالت نے دو سال قبل ایک مسلمان جوڑے کے مقدمے کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا جس میں کہا گیا تھا کہ کیونکہ ان کی شادی کی تقریب اسلامی رسومات کے تحت ہوئی اس لیے اب وہ قانونی طور پر طلاق کا حق بھی رکھتے ہیں۔ 2018 میں ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ جوڑے کا اسلامی طور پر ہونے والا نکاح کا بندھن بھی ملکی قانون کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ تاہم اپیلٹ کورٹ نے سرے سے نکاح کی اس تقریب کو ہی ’غیر مستند‘ اور غیر قانونی قرار دے دیا۔ ججز نے واضح کیا کہ مروجہ ملکی قوانین کے ہوتے ہوئے مزید کسی عائلی تقریب کی ضرورت باقی نہیں رہتی اور اس کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے۔ شادی کی تقریب شادیوں کیلئے مخصوص عمارت میں ہوئی۔ رجسٹرڈ کرائی گئی اور نہ ہی کوئی سرٹیفکیٹ دیئے گئے جبکہ اس موقع پر کوئی رجسٹرار بھی موجود نہیں تھا۔ اٹارنی جنرل نے ہائی کورٹ کے 2018 کے فیصلے کو اپیل کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ یہ مقدمہ نسرین اختر اور محمد شہباز خان کی طلاق سے متعلق تھا جن کے اس شادی سے چار بچے بھی ہیں۔اس مسلم جوڑے نے 1998 میں نکاح ایک ریستوران میں تقریب کے دوران کیا جس میں ایک امام اور پچاس مہمان بھی شریک تھے۔ تاہم نسرین اختر کے اصرار کے باوجود اس کے بعد مزید کوئی تقریب منعقد نہیں ہوئی۔اس جوڑے کی 2016 میں علیحدگی ہو گئی جس کے بعد شہباز خان نے اپنی اہلیہ کی طلاق سے متعلق درخواست کو یہ کہہ کر روکنے کی کوشش کی انھوں نے قانونی طور پر شادی نہیں کی تھی جبکہ ان کا کہنا تھا کہ ان کی اسلامی شادی اور طلاق کی درخواست مستند تھی اور انھیں وہی قانونی تحفظ ملنا چاہیے تھا جو برطانیہ میں دوسرے قانونی شادی شدہ جوڑوں کو ملتا ہے۔ متاثرہ جوڑے نے اپیل کی سماعت کے دوران حصہ نہیں لیا۔ 2017 میں شریعت کے قانون پر حکومتی جائزے میں کہا گیا تھا کہ مسلمان جوڑوں کو مسلمان رسموں کے علاوہ اپنی شادیوں کو رجسٹر بھی کروانا ہو گا اسی صورت میں اسلامی شادی مسیحی اور یہودی شادیوں کی طرح قانونی طور پر جائز ہو سکے گی۔