میونخ (این این آئی، نیٹ نیوز، نوائے وقت رپورٹ) ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کہا ہے کہ ان کا ملک عسکری ملیشیائوں کو نہیں بلکہ ان افراد کی مدد کرتا ہے جو تہران کی حمایت کرتے ہیں۔ میونخ میں سلامتی کانفرنس سے خطاب میں ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکی فوج کے حملے میں ہلاک ہونے والے پاسداران انقلاب کے جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا انتقام پورا نہیں ہوا۔ سعودی عرب کشیدگی میں کمی نہیں چاہتا۔ امریکیوں نے قاسم سلیمانی کو قتل کیا اب وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک سلامتی کا مشن تھا۔ میں پوچھتا ہوںکہ قاسم سلیمانی سے کس کو خطرہ تھا اور کون اس قتل سے محفوظ ہوا ہے؟۔ انہوں نے کہا کہ امریکا ایران کے موجودہ سیاسی نظام کو تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ ٹرمپ کی پالیسیوںکی وجہ سے ہم خطرناک ترین دور سے گزر رہے ہیں۔ ٹرمپ ایران میں نظام کے سقوط کا انتظار کر رہے ہیں۔ امریکی صدر کا خیال ہے کہ سلیمانی کے قتل کے بعد ایران گھٹنے ٹیک دے گا، مگر یہ اس کی خام خیالی ہے۔ سعودی وزیرخارجہ شہزادہ فیصل نے کہا ہے مملکت کی جانب سے ایران کو کوئی نجی پیغام نہیں بھیجا گیا ہے بلکہ اس کے لیے سعودی عرب کا پیغام بڑا واضح ہے۔ شہزادہ فیصل ہفتے کے روز میونخ میں منعقدہ سالانہ سکیورٹی کانفرنس میں ایک پینل گفتگو میں شریک تھے۔ انہوں نے کہا ’’ہمارا ایران کے لیے یہ پیغام ہے کہ وہ پہلے اپنے رویئے میں تبدیلی لائے۔ اس کے بعد ہی اس کے ساتھ کوئی بات چیت ہوسکتی ہے‘‘۔ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے پڑوسی خاص طور پر سعودی عرب کشیدگی میں کمی نہیں چاہتا کیونکہ وہ تہران پر دبائو ڈالنے کی امریکی مہم کے زیراثر ہے۔ دوسری جانب پریس ٹی وی نے رپورٹ کیا کہ جواد ظریف کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، ایران کے ساتھ کشیدگی میں کمی کے خواہاں نہیں ہیں کیونکہ ہوسکتا ہے امریکہ نے انہیں اسلامی جمہوریہ کے ساتھ کسی طرح کی بات چیت پر خبردار کیا ہو۔ کئی علاقائی ممالک جیسے کویت، قطر، عمان اور عراق نے ایران کے ہرمز امن اقدام کا جواب دیا کیونکہ اس اقدام کا مقصد خلیج فارس میں سکیورٹی یقینی بنانا ہے۔ قاسم سلیمانی سے متعلق بات بھی کی، ساتھ ہی کہا کہ قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد ایران کو سعودی عرب کا پیغام موصول ہوا، ہم نے اس کی پیروی کی لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ ادھر تہران ٹائمز نے رپورٹ کیا کہ جواد ظریف کا کہنا تھا کہ اگر تناؤ کم کرنے کی جستجو ہو تو بہت سے راستے ہیں لیکن وہ سمجھتے ہیں سعودی عرب جسیے ممالک یہ نہیں چاہتے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہمارے خطے میں کشیدگی چاہتے ہیں تاہم ایران مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ ایرانی وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کے ساتھ مذاکرات کے لیے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی درخواست پر وہ اور جنرل قاسم سلیمانی سعودی عرب کو یمن تنازعہ اور دیگر معاملات پر پیغام بھیجنے کے لیے راضی ہوئے تھے لیکن عرب کے شہزادے نے جواب دیا کہ عرب ممالک کے درمیان جنگ کا آپ سے کوئی سروکار نہیں۔ قبل ازیں اسی میونخ کانفرنس میں سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا سعودی عرب بھی کشیدگی میں کمی چاہتا ہے لیکن ایران مسلسل ’غیر محتاط رویے‘ اور ’عالمی معیشت کو دھمکی‘ دینے میں مصروف ہے۔ ایران کے ساتھ کشیدگی میں کمی کے لیے کوئی خفیہ پیغامات یا براہ راست رابطہ نہیں ہوا۔ سعودی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ جب تک ہم عدم استحکام کے اصل ذرائع کے بارے میں بات نہیں کرتے، گفتگو بے نتیجہ رہے گی۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق ایرانی صدر روحانی کا کہنا تھا کہ ایران کو دبائو میں لانے کیلئے امریکہ ہرممکن کوشش کرچکا ہے لیکن اسے کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ امریکہ مذاکرات کیلئے دبائو ڈال رہا ہے لیکن ایران کبھی اس دبائو سے پسپا ہوکر بات چیت نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایران کے بغیر مشرقی وسطیٰ اور خلیج فارس میں امن و استحکام نہیں آسکتا۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ دبائو ناقابل قبول ہے۔ امریکی پابندیوں کے سامنے جھکے ہیں اور نہ جھکیں گے۔ ایران کی مدد کے بغیر مشرق وسطیٰ اور خلیج فارس میں امن و استحکام ممکن نہیں۔
امریکی پابندیوں کے سامنے نہیں جھکیں گے: حسن روحانی، مذاکرات سے پہلے ایران رویہ بدلے: سعودی وزیر خارجہ
Feb 17, 2020