دنیا میں لوگوں کے پاس بے پناہ پیسہ ہے۔ یہ پیسہ حکومتوں سے زیادہ کمپنیوں اور انفرادی ملکیت میں ہے۔ ایمازون کا بانی جیف بیزوس دُنیا کا سب سے مال دار شخص ہے۔ بل گیٹس سے بھی آگے نکل گیا۔ گزشتہ روز ہیورلی ہلز (امریکہ) میں 9 ایکڑ پر پھیلی حویلی 16 کروڑ ( 25ارب روپے) میں خرید لی۔ یعنی ان مالدارو کو تلاش ہے تو یہ کہ کوئی ایسی جگہ ملے، جہاں اسے (مزید منافع کمانے اور اسے بڑھانے کیلئے لگایا جائے سرمایہ کاری کی مثال، پانی کی ہے۔ جو کسی کوشش اور مشقت کے بغیر خودبخود نشیب کی طرف بہتا ہے۔ ہر بڑی کمپنی اور مال دار حکومتوں نے ایسے شعبے بنا رکھے ہیں۔ جن کا کام ہی ایسی جگہوں کی تلاش ہے۔ جہاں سرمایہ لگا سکیں۔ اُنہیں سرمایہ کے تحفظ کے سوا کوئی یقین دہانی اور ضمانت نہیں چاہئے ہوتی۔
کچھ عرصہ پہلے تک تیل پیدا کرنے والے ملک، غیر ملکی اور بالخصوص سوئس برطانوی اور امریکی بنکوں میں پیسہ جمع کروایا کرتے تھے۔ اس میں اضافے کی شرح، دو تین، فیصد سے زیادہ نہیں ہوتی تھی۔ جبکہ متعلقہ ملکوں کی معیشت کو اس سرمائے سے غیر ملکی فروغ مل رہا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ اُنہیںسمجھ آئی کہ دوسرے ملکوں کی تجوریاں بھرنے کی بجائے کیوں نہ اس پیسے کو اپنے ملک کی یا دوسرے ملکوں کی صنعتی ترقی میں لگا دیا جائے۔ لطف یہ کہ ان ملکوں نے ازخود یہ پالیسی اختیار نہیں کی اور نہ اُنہیں یہ راہ سوجھی، بلکہ بھارت ایسے کائیاں ملکوں نے انہیں شیشے میں اُتارا۔ ایسے ایسے خواب دکھائے کہ عرب اور ایرانی سرمایہ کار یقین کرنے لگے کہ چند ہی برسوں میں وہ خود بھارت کے مالک ہو جائینگے۔ تیل پیدا کرنیوالے ملکوں کی نوجوان نسل اسلام یا اسلامی حمیت سے خاصی حد تک لیے بے بہرہ تھی۔ اُنہوں نے پیسہ دیتے وقت یہ یقین دہانی حاصل کرنے کی کبھی ضرورت محسوس نہیں کی۔ کہ کم از کم مسلمانوں کے آثار اور مسلمانوں سے ہمدردانہ اور روا دارانہ سلوک کیا جائے۔ بھارت میں امارات اور دوسرے تیل پیدا کرنیوالے عرب ملکوں کے کھربوں ڈالر لگے ہوئے ہیں۔ مگر ہمارے ان مہربانوں نے یہ جاننے کی کبھی کوشش نہیں کی، کہ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پر کیا گزر رہی ہے، یا متنازع شہریت بل سے بھارتی مسلمانوں انکے مستقبل اور اسکے نتیجے میں اسلام کو یا اسلام کے نام پر وجود آنیوالے ملک (پاکستان) کو کیا نقصان پہنچے گا بلکہ الٹا انہیں مندر بنا بنا کر دیئے جا رہے ہیں اور سرزمین اسلام پر پہلا مندر بنانے اور پہلی بار رام مورتی کی پوجا ہونے کا اعزاز حاصل کر رہے ہیں۔
خبر ہے اور بڑی پکی خبر کہ سعودی عرب بنگلہ دیش میں 30ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے والا ہے، بنگلہ دیش میں حکمران سیاسی جماعت عوامی لیگ کی حکومت ہے جس نے پچھلے چند برسوںمیں چند ایسے فرشتہ سیرت اور معمر لوگوں کو پھانسی چڑھا دیا جنہوں نے پاکستان کے دو ٹکڑے ہونے کی مخالفت کی۔ بہرحال بنگلہ دیشی ہمارے بھائی ہیں، ہمیں ان سے حسد کرنے کی چنداں ضرورت نہیں اگر بنگلہ دیشی خوشحال ہوںتو ہمیں خوشی ہوگی۔ اسی طرح ایک اور خبر ہے کہ روس اور سعودی عرب میں بھی 10ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کیلئے بات چیت ہو رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ 10ارب ڈالر کی بھاری رقم روس تو کہیں لگانے سے رہا، پیسہ تو ہمارے سعودی دوست ہی لگائیں گے جن کے باہمی سیاسی تعلقات کا یہ عالم ہے کہ ان دنوں روس اور ترکی بہت ہی قریب ہو رہے ہیں جبکہ خاشق جی کے قتل کے بعد ترکی اور سعودی عرب کے باہمی تعلقات میں شدید کھچائو پایا جاتا ہے۔ اب تک نوحے کا پہلا مصرعہ پیش کیا، اب دوسرا سنئے کہ جب سے پی ٹی آئی نے اقتدار سنبھالا ہے، پاکستان نے دست استمداد (مانگنے والا ہاتھ)دراز کر رکھا ہے۔ اگر کسی سے چند ملین ڈالر بھی ملتے نظر آتے ہیںتو اس رقم کو موٹے شیشوں والی عینک لگا کر دیکھا جاتا ہے، آخر کیوں؟ ہم میں کیا خرابی ہے کہ ہماری طرف کوئی رخ نہیں کرتا اگر سی پیک کو منفی کر دیں تو باقی کیا بچتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ لوگوں کو ہم پرشک ہوگیا ہے کہ ہم ان کا پیسہ کھا جائیں گے یاان کی سرمایہ کاری خسارے کاسودا بنا دیں گے۔ اہل سیاست کو اقتدار کے تانے بانے بننے سے فرصت نہیں، کسی کو اٹھانا ، کسی کو گرانا ، یہی ہے ریت ہماری۔ اوپر سے ہم نے اپنے ہاں کرپشن کا اس قدر چرچا کر دیا ہے کہ لاطینی امریکہ کے آخری سرے پر بسنے والا شہری بھی آگاہ ہے کہ پاکستان سب سے بڑا کرپٹ ملک ہے پھر ہم نے لوگوں کو یہ باور کرانے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی کہ پاکستان کی ساری دولت چور اور ڈاکو لوٹ کرلے گئے۔ چور اور ڈاکو ایسے مقامات پر وارداتیں کرتے ہیں جہاں پولیس اور اس طرح کے شعبے نہ ہوں اگرچہ نیب کا تعلق ’’عہد قدیم‘‘ سے ہے لیکن جب فعالیت کا مظاہرہ اب دیکھنے میں آرہا ہے وہ پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ ایک تصور یہ بھی تھا کہ نیب مخالفین کو بدنام کرنے اور ان کی پگڑی اچھالنے کیلئے ہی ہے۔ صحیح کام خراب ہونے لگا ہے کہ دنیا جہان کے نظریہ ہائے، عدل و انصاف کے برعکس جرم کیخلاف ثبوت کی فراہمی، مدعی کا فرض قرار پایا ہے۔ کیا دنیا نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں کہ پاکستان میں کیا انوکھا ہو رہا ہے۔ جب تک ہم دنیا کو اپنا دامن صاف نہیں دکھائیں گے، کسی کی مت ماری گئی ہے کہ وہ ایک ایسے ملک میں سرمایہ کاری کرے جہاں کرپشن کی حکمرانی ہے، چوروں اور ڈاکوئوں کا راج ہے اور یہاں کا جو جتنا بڑا ہے، وہ اتنا بڑا ہی گاڈفادر، سسلین اور مافیا ہے۔ جہاں بیشتر سیاستدان جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ جیلوں کی حالت سدھارنے اور ان کی جدید تقاضوں کے مطابق اصلاح کرنے کی بجائے انہیں چاہ یوسف بنایا جا رہا ہے۔ کوشش ہو رہی ہے کہ جو سرمایہ دار یا سیاستدان ایک دفعہ جیل چلا جائے تو پھر وہ تاحیات سورج کا منہ نہ دیکھ پائے۔ ساری قانون دانی اس امر پر وقف کر دی جاتی ہے کہ جسے پکڑ لیا گیا ہے اس کی ضمانت نہ ہو۔
اہل وطن! ہمارے مسائل کا حل عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور آئی ایم ایف کے پاس نہیں، سرمایہ کار کے پاس ہے اور دنیا کے پاس بہت پیسہ ہے۔ جیساکہ اوپر عرض کیا کہ سرمایہ کار کا سرمایہ نشیب کی مانند ہے۔ خودبخود ادھر کو بہہ نکلے گا، جدھر نشیب ہوگا۔ ملک کی اچھی تصویر دکھائیے۔ ’’تُن کے رکھ دیاں گے‘‘ کی سوچ ترک کیجئے، اس کی جگہ قوم میں پیار و محبت اور اتحاد کی سوچ اختیار کیجئے۔
سرمایہ کاری کیلئے سازگار
Feb 17, 2020