اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو اب عملیت سے کام لینا ہوگا

کشمیر پر اردگان اور امریکی سینیٹر کے موقف پر بھارت آگ بگولہ‘ سیکرٹری یواین پاکستان کے دورے پر
امریکی سینیٹر لنزے گراہم کے منہ سے کشمیر کا ذکر سن کر بھارتی وزیر خارجہ غصے میں آ گئے۔ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر سفارتی آداب فراموش کر بیٹھے۔ میونخ کانفرنس کے دوران امریکی سینیٹر لنزے گراہم نے کشمیر کا ذکر چھیڑا اور بھارتی اقدامات کو تنقید کا نشانہ بنایا جس پر جے شنکر نے غصے میں کہا کہ آپ فکر نہ کریں مسئلہ کشمیر بھارت اکیلا ہی حل کر لے گا۔دریں اثناء یورپی یونین نے بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں عائد پابندیاں فوری طور پر ہٹا لے۔پورپی یونین اور کئی ملکوں کے سفیروں کے حالیہ دورہ مقبوضہ کشمیر کے بعد یونین کی ترجمان برائے امور خارجہ اور سلامتی پالیسی ورجین باتوہینرکسن نے بھارتی اخبارانڈیا ٹوڈے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر میں نافذ پابندیوں کو فوری طور پر ہٹانا ناگزیر بن گیا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ جموں وکشمیر میں انٹرنیٹ پوری طرح بحال نہیں ہے اور سیاسی قیدی ابھی بھی نظر بند ہیں اور ان سبھی معاملات کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہنر کسن نے مزید کہا کہ یورپی یونین کی جموںوکشمیر کی صورتحال پر گہری نظر ہے۔
کشمیر ایشو پر دنیا میں جہاں بھی بات ہوتی ہے‘ بھارت اس پر اسی طرح بھڑک اٹھتا ہے جس طرح گزشتہ روز بھارتی وزیر خارجہ شنکر حواس باختہ ہو کر اول فول بکنے لگے۔ ایسا ہی رویہ بھارت کی طرف سے ترک صدر طیب اردگان کی طرف سے کشمیر کو ترکی کا اپنا ایشو قرار دینے پر اختیار کیا گیا۔ مقبوضہ کشمیر سے متعلق ترک صدر طیب اردگان کے بیان سے بھارت تلملا گیاتھا۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ترک صدر کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے مسئلے کو ایک بار پھر بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دیا ہے۔ ترجمان بھارتی وزارت خارجہ نے ترک صدر کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کا علاقہ بھارت کا اٹوٹ اور ناقابل تقسیم حصہ ہے۔ ترجمان نے مزید کہا کہ ہم ترک قیادت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بھارت کے اندرونی معاملات میں دخل نہ دے اور اس معاملے سمیت پاکستان کی طرف سے بھارت اور خطے میں دہشت گردی کے ابھرتے ہوئے بڑے خطرے کے حقائق کو مکمل طور پر سمجھے۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز ترک صدر طیب اردگان نے پاکستان کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں مقبوضہ کشمیر پر پاکستانی مؤقف کی حمایت کی اور کہا کہ کشمیر ترکی کیلئے ایسا ہی ہے جیسا پاکستان کیلئے ہے۔
مسئلہ کشمیر بھارت خود اقوام متحدہ میں لے کر گیا‘ اس وقت پورا کشمیر پاکستان کی دسترس اور تسلط میں آیاچاہتا تھا۔ اقوام متحدہ نے فوری طور پر فائربندی کرادی اور اس مسئلہ کیلئے استصواب کی تجویز دی جسے بھارت نے تسلیم کیا لیکن بعد میں اس سے مکر گیا‘ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ کشمیری پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں بدستور موجود ہیں‘ اسکے باوجود کشمیر کو بھارت اپنا اندرونی معاملہ ہونے کا راگ الاپتا ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں سے انکاری ہونے کے بعد بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو عالمی قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے اپنی ریاست کا درجہ دے دیا‘ اسی وقت اقوام متحدہ‘ اسکی سلامتی کونسل اور بااثر ممالک کو نوٹس لینا چاہیے تھا مگر انکی طرف سے مکمل خاموشی اختیار کی گئی جس سے بھارت کے مزید حوصلے بڑھے۔ پاکستان کی کچھ سیاسی قیادتیں بھی مصلحتوں کا شکار ‘کچھ بھارت سے تعلقات کی اسیر رہیںاور کچھ تو گرم جوشی سے دوستی کا ہاتھ بھی بڑھانے لگیں۔
ہمارے حکمرانوں کی طرف سے ایسے رویہ کا فائدہ اٹھا کر بھارت مقبوضہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دینے لگا۔ مقبوضہ وادی میں اپنے قبضے کو بھارت مضبوط سے مضبوط تر بناتا چلا جا رہا ہے۔ اس کا سب سے بڑا شب خون 5 اگست کو کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرکے مارا گیا۔ پاکستان اور کشمیریوں کی طرف سے بھارت کی اس جارحیت سے آگاہ کیا گیا تو دنیا میں اضطراب پایا جانے لگا۔ وسیع پیمانے پر مذمت کی گئی اور بھارت کیخلاف ہر طرف مظاہرے اور احتجاج ہونے لگے جس پر 50 سال بعد اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کو اپنا ہنگامی اجلاس بھی بلانا پڑا لیکن بدقسمتی سے اس اجلاس میں بھارتی اقدام پر صرف تشویش کا اظہار ہی کیا گیا لیکن بھارت پر کسی قسم کی اقتصادی پابندی عائد نہیں کی گئی جس سے حوصلہ پا کر بھارت نے وادی میں کرفیو کی پابندیاں مزید سخت کردیںجس کو اب سات ماہ ہونے کو ہیں۔ اس دوران وادی میں بدترین انسانی المیہ جنم لے چکا ہے جس میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے۔
بھارت نے ساڑھے نو لاکھ سفاک سپاہ کے زور پر کشمیریوں کی آواز دبا رکھی ہے۔ اپنی سفاکیت اور بربریت پر پردہ ڈالے رکھنے کیلئے مقبوضہ کشمیر میں عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں‘ آزاد میڈیا اور غیرجانبدار پارلیمنٹیرین اور مبصرین کے داخلے پر پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں۔ اپنے نکتہ نظر کے حامی میڈیا اور پارلیمنٹرین کو مقبوضہ وادی لے جایا جاتا ہے‘ ان کو محدود اور قدرے پرامن علاقوں میں گھما پھرا کر سب اچھا کی رپورٹ کی توقع کی جاتی ہے۔ ان میں سے بھی کچھ باضمیر میڈیا ممبر اور پارلیمنٹیرین بھارتی مظالم کی روداد سنا دیتے ہیں۔ ہنرکس بھی ان میں سے ایک ہیں۔
بھارت نے دنیا کے شدید ردعمل کا نہ صرف کوئی اثر نہیں لیا بلکہ مظالم بڑھا دیئے ہیں۔ کشمیریوں پر کبھی کشمیر کے اندر ہی عقوبت خانوں میں تشدد ہوتا تھا‘ اب بھارت میں ٹارچر سیل بنا دیئے گئے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ان میں ہزاروں حریت پسندوں کو اذیت سے دوچار کیا جارہا ہے۔ بھارت جو کل تک کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا تھا‘ اب آزاد کشمیر سمیت پاکستان کے شمالی علاقہ جات گلگت بلتستان کو بھی اپنا حصہ قرار دے رہا ہے۔ اسکے ایک مخبوط الحواس فوجی سربراہ نے بیک وقت 96 گھنٹے میں بیجنگ اور اسلام آباد کو ٹوپل کرنے کی بڑ ماری تھی۔ ان جیسے ہی موجودہ حواس باختہ سربراہ منوج آزاد کشمیر پر بھی قبضے کی بڑ مار رہا ہے۔ ادھر مودی کا احمقانہ بیان بھی سامنے آیا ہے کہ پاکستان کو دس روز میں فتح کرلیں گے۔ یہ دعوے ایسی فورسز کے زعم پر کئے جارہے ہیں جن کی اصل مقابلے سے پتلونیں بھیگ جاتی ہیں اور وہ سرجیکل سٹرائی کے جھوٹے دعوے کرکے اپنے عوام کو مطمئن کرتے ہیں جبکہ گزشتہ فروری میں ابھی نندن جیسا ’’سورما‘‘پاکستان کو سبق سکھانے کیلئے بھیجا گیا جو خود پاکستان سے سبق سیکھ کر گیا۔ ایسے مہارت کے حامل پائلٹوں کے بل بوتے پر بھارت کی طرف سے فتح کے دعوے کئے جارہے ہیں۔
بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم خطرناک حد تک بڑھ چکے ہیں۔ بھارت لنزے گراہم کے بیان پر آگ بگولہ ہویا طیب اردگان کے موقف پر تلملائے‘ حقیقت یہی ہے کہ پاکستان نے بھارت کا ظالم اور سفاک چہرہ دنیا کے سامنے رکھتے ہوئے کشمیریوں کی مظلومیت آشکار کردی ہے جس کے باعث بھارت کو بڑے دبائو کا سامنا ہے جس سے اشتعال انگیز بیان بازی کے ذریعے نکلنا ممکن نہیں۔ دنیا بھارت کی بربریت اور سفاکیت کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کی مظلومیت کی بھی قائل ہوچکی ہے۔ بھارت انکے انسانی حقوق کی بحالی کیلئے تیار نہیں اور محض سخت بیانات ‘مذمتوں اور تشویش کے اظہار سے سنگدل بھارت پر کوئی اثر بھی نہیں ہونے والا۔ اس کیلئے بھارت کیخلاف اب عملیت کی ہی ضرورت ہے۔ ترکی کی طرح ایران بھی پاکستان کے موقف کا حامی ہے۔ ملائیشیا نے بھارت سے وابستہ اپنے مفادات کو تیاگ کر اصول کی بات کی ہے۔ اس پر بھی بھارت آبلہ پا ہوچکا ہے مگر ایسے ممالک کے کشمیر ایشو پر موقف میں کوئی لچک اور نرمی پیدا نہیں ہورہی۔ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور خلیجی ممالک بھی پاکستان کے شانہ بشانہ ہوں تو بھارت کو مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے مزید دبائو میں لایا جاسکتا ہے۔ دبائو برداشت کرنے کی بھی ایک حد ہوتی ہے‘ آخر بھارت کہاں تک دبائو برداشت کریگا۔ پاکستان کو مسلسل دوسرے ممالک سے دبائو ڈلواتے اور بڑھواتے رہنا ہوگا۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئٹرس پاکستان کے دورے پر ہیں‘ انکی طرف سے آزاد کشمیر کے دورے سے گریز کیا جارہا ہے۔ انہیں لائن آف کنٹرول کا دورہ ضرور کرایا جانا چاہیے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے کانفرنس میں خطاب اور بعدازاں سوالات کے جواب میں گوئٹرس کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کا احترام کیا جانا چاہیے‘ کشمیریوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے‘ کشمیریوں کے انسانی حقوق اور تحفظ کو یقینی بنانے کے حوالے سے سب سے بڑی ذمہ داری اقوام متحدہ پر عائد ہوتی ہے۔ گوئٹرس پر بھی دورے کے دوران اس معاملے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے پر زور ڈالنے کی ضرورت ہے۔

ای پیپر دی نیشن