محترمہ مریم جناح

Feb 17, 2020

عزیز ظفر آزاد

Sir Deenisha Hunt سرڈینشاء ہنٹ کا تعلق بمبئی کے معروف کاروبار ی گھرانے سے تھا۔ 1786ء میں وادی سوات سے ہجرت کرکے بمبئی قیام پذیر ہوئے ۔ اپنی قابلیت اور بہتر کاروباری سوجھ بوجھ کے باعث جلدہی ترقی کی منازل طے کیںاور شہر کے خو اص میں ان کا شمار ہونے لگا ۔ انکے بیٹے مانک ہنٹ نے بمبئی میں پہلی کاٹن مل لگائی ۔ روز بروز محنت اور اچھی منصوبہ بندی کے باعث کاروبار وسیع تر ہوتا چلا گیا ۔ مانک ہنٹ کا خاندان بمبئی کے امیر ترین خانوادوں میں شمار ہو نے لگا۔مالی حیثیت اور قابلیت اور تاج برطانیہ سے تعلقات کے سبب وائسرائے ہند نے ڈینشاء ہنٹکو سرکے خطاب سے نوازا ۔ ڈنشا ہنٹ پارسی مذہب سے تعلق رکھتے تھے ۔ شہر میں اپنے پیشہ ورانہ صلاحیت اور ہن سہن حکومت اور راجواڑوں سے تعلقات کے سبب بلند مرتبہ تھا ۔ انکے اصول پرستی غریب پروری اور معاملہ فہمی کا ہر شخص قائل تھا ۔ 20فروری 1900کو ان کے گھر ایک بچی پیدا ہوئی جو بہت خوبصورت اور نیک بخت تھی ۔ والدین نے اس کا نام رتن بائی رکھا ۔ رتن ابتداء ہی سے ذہین اور شوخ شریر مزاج کی مالک تھی ۔ تھوڑی سی بڑی ہوئی تو تعلیم میں بہت تیز اور قابل ثابت ہوئی ۔نازونعم میں پلی خوبصورت خوب سیرت بچی چھوٹی سی عمر میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ۔ خاص ادبی ذوق اور شاعرانہ مزاج کی حامل تھیں ۔ رتن بائی تیرہ چودہ سال کی عمر میں معروف شاعروں اور سکالروں کو پڑھنے او ر سمجھنے لگیں ۔وہ ٹینی سن کیٹس شیلے اور برناٹ شاہ کی تحریروں کا مطالعہ بڑے شوق سے کرتیں ۔ رتن بائی کم عمری کے باوجود ہر معاملے کو اپنے زاویہ نظر سے دیکھتیں منفرد انداز فکر سے محسوس کرتیں ۔ اسی طرح اظہار میں بے باکی اور کمال جرات کی حامل تھیں ۔ چنچل اور شوخ طبیعت کے ساتھ ساتھ ملبوسات اور زیورات کے انتخاب اور ڈیزائننگ میں بھی ملکہ حاصل تھا ۔سر ڈنشا ء ہنٹ اور قائداعظم عمر میں فرق ہونے باوجود ایک دوسرے کے بہت قریب تھے ۔ قائداعظم بمبئی اسمبلی کے رکن اور نامور بیرسٹر تھے ۔ ان کا شمار شہر کے خواص طبقہ میں تھے لہذا سر ڈنشا ہنٹ سے بہت دوستی تھی ۔ میل جول کے علاوہ ایک دوسرے سے مشاورت کا رشتہ استوار تھا ۔ اپنے عہد کے مسائل اور دوسرے معاملات میں خیالات میں ہم آہنگی پائی جاتی تھی ۔ قائد اعظم اپنے بزرگ دوست کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے اور انکے مشورے کو بڑی اہمیت دیتے ۔ قائد اعظم نے سر ڈینشا ہنٹ کے مشورے پر ہی اپنے بمبئی والا بنگلہ سر وکٹر نامی ایک انگریز سے خریدا تھا اس دور میں میونسپلٹی کے ریکارڈ کے مطابق بنگلے کی قیمت فروخت سوا لاکھ روپے درج ہے ۔ اس بنگلے کو مشہور برطانوی آرکٹیکٹ کلاڈ بیٹلے نے ڈیزائن کیا تھا جو حقیقتا کسی شاہکار سے کم نہیں ۔ بنگلے کا نام سائوتھ کوٹ ہے جس کی موجودہ قیمت چارسو کروڑ سے زیادہ بتاتے ہیں آج بھی دیکھنے والے اس بنگلے کی فن تعمیر سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ سر ڈنشا ہنٹ بھی قائداعظم محمد علی جناح کو بڑی شفقت اور قدر کی نظر سے دیکھتے تھے ۔1916ء میں وہ لیڈی ڈنبائی اپنی جواں سال بیٹی رتن بائی جسے پیار سے رتی کہتے تھے کہ ساتھ گرمیوں کی تعطیل گزارنے ڈجلنگ آئے تھے وہاں قائداعظم بھی موجود تھے یہاں ہی محمد علی جناح کی رتی سے پہلی ملاقات ہوئی اس وقت رتی کی عمر سولہ سال تھی مگر اپنے خیال و افکار کے لحاظ سے بہت آگے دیکھنے اور سوچنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔ قائداعظم اکثر و بیشتر انکے گھر جاتے جہاں رتی بھی موجودہوتی ۔ مختلف امور میں خیالات یکساں پائے جاتے رتی کو کم عمری میں بیالیس سالہ نہایت سنجیدہ بردبار متین مگر قابل اور ذہین بیرسٹر محمد علی جناح پسند آگئے ۔ رتی اس بری طرح دل ہاری گویا دیوانی ہوگئی ۔ قائداعظم کی شخصیت ان کا گھر وکالت سیاست گویا زندگی کے ہر پہلو میں دلچسپی لینے لگیں کچھ ہی عرصے بعد دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اظہار محبت کے بعد شادی کی پیشکش کر دی ۔ قائداعظم کی پہلی شادی لڑکپن میں ہوئی تھی ۔ آپ کی اہلیہ کو وفات پائے عرصہ گزر چکا تھا آپ کی زندگی میں کوئی عورت نہیں تھی نہ ہی تاریخ میں کوئی شواہد ملتے ہیں کہ آپ نے رتی کے سوا کسی عورت میں دلچسپی لی ہو لہذا رتی کی شکل عقل آرائش زیبائش طرز گفتگو تکلم تبسم فہم و فراست قائد کو بھاگئی تو رتی کی محبت نے قائداعظم کو اپنی جانب راغب ہونے پر مجبور کر دیا ۔ پسند محبت میں بدل گئی ۔ بیرسٹر محمد علی جناح بھی شادی کیلئے تیار ہوگئے اور تی کے والد سے باقاعدہ رشتے کی درخواست کر دی مگر سر ڈنشا ہنٹ نے صاف الفاظ میں جواب دیتے ہوئے کہا مسٹر جناح آپکی اور رتی کی عمر میں خاصا فرق ہے دوسرے دونوں الگ الگ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں ۔ (جاری)

مزیدخبریں