چودھراہٹ کی پَگ 

 بڑے چوہدری صاحب کی وفات کے بعدپچھلے دس برس سے ’’چودھراہٹ‘‘ کی پگ اب انکے اکلوتے بیٹے چوہدری ہیبت خان کے سر پر ہے جن کے رعب، دبدبے اور ہیبت کا یہ عالم ہے کہ انکی مرضی کے بغیر انکے علاقے میں چڑیا کا بچہ بھی پر نہیں مار سکتا۔ چوہدریوں کی شاید ہی کوئی ’’خوبی‘‘ ہو جو چوہدری صاحب کی ذاتِ گرامی کا حصہ نہیں۔خاص طور پر اعلیٰ نسل کے ریس والے گھوڑے اورکتے پالنے کے معاملے میں تو وہ چوہدریوں کے بھی چوہدری ہیں۔ یوں تو انکے اور بھی بہت سے شغل ہیں لیکن لڑائی والے کتے پالنا انکا انتہائی شوق ہے۔ ایسا نہیں کہ کتوں میں چوہدری صاحب کو صرف لڑائی والے کتے ہی پسندہوں۔ اُنکے پاس کتوں کے ’’سکواڈ‘‘میں انتہائی خونخوار شکاری کتے بھی موجود ہیں جو چوہدری صاحب کی ایک ذرا سی ’’ہُش‘‘ پر منٹوں میں کسی بھی ’’شکار‘‘ کی تکا بوٹی کردیں۔ انکے علاوہ چوہدری صاحب کے پاس ’’ڈیکوریشن ٹائپ‘‘ چندبھونکنے والے کتے بھی ہیں جو ڈیرے پر ہر آنے جانے والے کو دیکھ کر اس پر بھونکنے لگتے ہیں جن کی گھبراہٹ دیکھ کر چوہدری صاحب خوب ’’انجوائے‘‘ کرتے ہیں۔ چودھری صاحب کو کہیں پر کوئی کتا پسند آجائے وہ اسے منہ مانگے داموں نہ صرف خرید لیتے ہیں بلکہ پھر اسکی ’’ٹہل سیوا‘‘ بھی پر پانی کی طرح پیسہ بہاتے ہیں۔ دس بارہ کمی کمین دن رات کتے کی خاطر مدارت کیلئے اسکے آگے پیچھے دوڑتے دوڑتے ’’پھاوے‘‘ ہو جاتے ہیں۔پچھلے دنوں چوہدری صاحب نے ایک اعلیٰ نسل کا لڑنے والا انتہائی مہنگا کتا خریدا۔کسی شیر کی طرح اونچے قد کاٹھ اورچیتے جیسا پھرتیلاکتا تھا بھی بہت زبردست جو بھی اسے دیکھتاتعریف کیے بنا نہ رہتا۔ملنے جلنے والوں کے منہ سے کتے کی تعریفیں سن کر چوہدری صاحب ایسے خوش ہوتے جیسے کتے کی نہیں انکی اپنی تعریف ہورہی ہو۔ کتے کی دیکھ بھال کمیوں پر چھوڑنے کی بجائے وہ بطور خاص خود بھی اسکی خاطر داری میں پیش پیش رہے ظاہر ہے چوہدری صاحب کی عزت بے عزتی کا سوال تھا۔کتے کی دیکھ بھال میں کچھ کمی رہ جاتی تو تو لڑائی میں مخالفوں کے کتے سے ہارنے کا اندیشہ تھا جس کا سیدھا سیدھا مطلب صرف کتے کی ہار نہیں بلکہ بھرے مجمعے میں چوہدری صاحب کی اپنی ’’کنڈ‘‘کا نیچے لگنا تھاجو چوہدری صاحب کو کسی قیمت پر منظور نہ تھا۔چوہدری صاحب کی خدمتوں کا اعجاز تھا یا کتے کی بنیادی وفاداری کا تقاضا کہ کتا بھی دنوں میں چوہدری صاحب سے مانوس ہوگیا اور انکے اشاروں کو سمجھنے ہی نہیںاُن پر ناچنے بھی لگا۔چوہدری صاحب کو پوری امید تھی کہ اس بار کتوں کے دنگل میں اُن کا ’’شیرو‘‘ ہی جیتے گا۔مگر چوہدری صاحب اور کتے دونوں کی بدقسمتی کہہ لیں کہ اس قدر محنت اور تیاری کے باوجود کتوں کی لڑائی میں چوہدری صاحب کا ’’شیرو ‘‘بری طرح ہار گیا۔ کتا کیا ہارا بھرے میلے میں مخالفوں کے سامنے چوہدری صاحب کی ’’مُچھ‘‘ نیچی ہوگئی مارے غصے کے چوہدری صاحب کارنگ لال ہوگیا اور آنکھیں ابلنے کو آگئیں۔وہیں میدان میں کتے کو سامنے کے ایک درخت کے ساتھ باندھنے کا حکم دیا ،زخموں سے چورلہولہان بیچارہ کتا اپنے انجام سے بے خبر اب تک اپنے زخم چاٹ رہا تھا۔چوہدری صاحب نے اپنے گن مین کے ہاتھ سے بندوق لی اور شدید غصے کے عالم میں شکست خوردہ کتے پر فائر داغ دیا ۔گولی کتے کی پیٹھ کے قریب لگی تکلیف کی شدت سے کتے نے فوراََ بھاگنا چاہا مگر گلے میں بندھی زنجیر کی وجہ سے وہیں گر پڑا لیکن فوراََ اٹھ کر اِدھر اُدھر بھاگ کر زنجیر تڑوانے کی ناکام کوشش کرنے لگا۔زنجیر تڑوانے کیلئے اِدھر اُدھر گرتے پڑتے کتے کی آنکھوں میں تکلیف اور حیرانی کے ملے جلے تاثرات تھے جیسے اسے یقین نہ ہو کہ اس پر گولی اُسکے اسی مالک نے چلائی ہے جس کیلئے ابھی کچھ دیر پہلے وہ اپنی جان کی بازی لگا رہا تھا۔ چوہدری صاحب کے سر پر اس وقت خون سوار تھا انہوں نے بے زبان کتے کے جذبات سمجھے بغیر اس پر ایک اور فائر کیا جو کتے کی پسلیوں کے درمیان سے ہوتا ہوا شاید اسکے دل کو چیر گیا۔کتا اس فائر سے زمین پر گر گیا اس کی آنکھیں اب بھی کھلی تھیں مگر اب ان میں بے یقینی کی بجائے اپنے مالک کی بے وفائی کا گلہ اور افسوس تھا۔کتے کے کرب سے بے خبر چوہدری صاحب نے اپنی جھوٹی اَنا کی تسکین کیلئے اس پر لگاتار تین چار فائر اور کیے جس کے بعد بیچارہ کتا مزید تڑپے بغیر دیکھتے ہی دیکھتے کسی کتے کی موت مر گیا۔چوہدری صاحب نے آگے بڑھ کر مردہ کتے کو ایک ٹھوکرماری ا ور مخالفوں کو سنانے کیلئے اونچی آواز میں کہا’’ اوے رحمیا اگلی بار مقابلے کیلئے آج ہی سے کسی نسلی کتے کی تلاش کردے اور یاد رکھ اگلے دنگل میں میرا کتا ہارا تو کتے کے ساتھ ساتھ تجھے بھی گولی مار دونگا‘‘۔

ای پیپر دی نیشن