’’اس شہر‘‘ میں ہر شخص کا ایمان بکا ہے

تین سال پرانی ویڈیو کیا منظرعام پر آئی‘ سیاست میں بھونچال آگیا۔ ایوانوں میں ہلچل مچ گئی۔ عوام و خواص میں بحث چھڑ گئی۔کسی نے کہا یہہیں ہمارے ارکان اسمبلی کے کرتوت‘ کوئی پکار اٹھا انسانوں کی بستی ہے‘ فرشتے نہیں اترتے۔ کسی نے کہا کہ ’اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں‘‘ حکمران پارٹی نے اسے انتخابی نظام کا ’’ثمر‘‘ کہا تو اپوزیشن جماعتوں نے یہی ’’غازہ‘‘ اٹھا کر حکمرانوں کے چہرے پر لیپ دیا۔ کسی ’’رہبر‘‘ نے کہا یہ ’’بے وقت کی راگنی ہے‘‘ کوئی ’’رہنما‘‘ سراہنے لگا کہ ’’بروقت اقدام ہے‘‘ کیونکہ 2018ء کے سینٹ الیکشن میں خیبرپختونخوا کے ارکان اسمبلی کے سامنے نوٹوں کے ڈھیراورنوٹ بیگوں میں پھرنے کی ویڈیو عین اس ’’مناسب‘‘ اور ’’موزوں‘‘ وقت پر وائرل کی گئی کہ جب سینٹ الیکشن اوپن بیلٹ پر کرانے کے حوالے سے صدارتی آرڈیننس جاری ہو چکا ہے اور پھر اس کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج بھی کیا جا چکا ہے۔ ایسے حالات میں گڑے مردے اکھاڑنا یقینا اپنے پس پردہ خاص مقاصد رکھتا ہے۔ سیاست کی معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والا ایسے مقاصد کا خوب خوب ادارک رکھتا ہے۔ نوٹوں سے بیگ بھر بھر کر لے جانا ہماری قومی سیاست میں کوئی اچنبھے کی بات ہے نہ امور سلطنت اور معاملات جہانبانی میں اس کومعیوب سمجھا جاتا ہے بلکہ ہمارے سیاستدان تو بڑے فخر سے بیان کرتے ہیں کہ 1985ء کے غیرجماعتی انتخابات میں پہلی بار پیسہ استعمال کیا گیا حالانکہ یہ بھی محض ایک خاص دور حکومت اور طرز مملکت کو نشانہ بنانے کیلئے ہے ورنہ سیاست اور پیسے کا تو چولی دامن کا ساتھ ہے۔ پھر 90ء کی دہائی کو سیاستدانوں کی ’’لکشمی‘‘ کہا جاتا ہے۔ آئی جے آئی کے پلیٹ فارم پر کیا کچھ ہوا‘ کس طرح ہوا جس میں کئی ’’پردہ نشینوں‘‘ کے بھی نام آتے ہیں۔ ’’پنڈورہ بکس‘‘ کئی بار کھولنے کی کوشش ہوتی رہی‘ لیکن پھر 
داور حشر میرا نامہ اعمال نہ کھول
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں
کے مصداق چپ رہنے میں ہی عافیت سمجھی جاتی رہی۔لیکن چند روز قبل منظرعام پر آنیوالی کا وزیراعظم نے فوری نوٹس بھی لیا اور صوبائی وزیر سلطان محمد خان (جو اس وقت بھی ایم پی اے ہیں‘ ویڈیو میں بھی نظر آرہے ہیں) کو فوری طورپر فارغ کر دیا۔ جبکہ سکینڈل کی تحقیقات کا بھی حکم دیدیا۔ اب دیکھتے ہیں کیا نتیجہ نکلتا ہے اور تحقیقات کتنا عرصہ چلتی ہیں۔ ہمارے ملک میں تحقیقات کی جو ’’رفتار‘‘ ہوتی ہے اس لحاظ سے ویڈیو سکینڈل کی تحقیقات سینٹ کی اگلی انتخابی مدت پوری ہونے تک تو چلتی رہیں گی۔ تب تک حمودالرحمن کمشن کی طرح بہت کچھ حافظے سے محو ہوچکا ہوگا۔  بہرحال خریدوفروخت کی یہ ’’ریت‘‘ نئی نہیں بلکہ یہ اپنا ’’شاندار‘‘ ماضی رکھتی ہے۔ البتہ خریدوفروخت کے انداز بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی چھانگا مانگا کی سیاست‘ کبھی مری کے سیرسپاٹے‘ کبھی فارورڈ بلاک بنائے جاتے ہیں۔ آ ج جو اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ارکان پنجاب اسمبلی وزیراعلیٰ اور دیگر حکومتی عہدیداروں سے ملاقات کر رہے ہیں‘ اسے کیا کہیں گے۔ سیاسی وفاداریاں بدلنے والوں کیلئے استعمال ہونے والی اصطلاح اتنی مقبول ہوئی کہ ’’ہرجائی‘‘ جیسی عشقیہ اور ادبی اصلاح کو بھی پیچھے چھوڑ دیا حالانکہ سیاسی وفاداریاں بدلنے کی ’’رسم‘‘ توڑنے کیلئے باضابطہ قانون سازی بھی کی گئی تھی کیونکہ ماضی کی دو مضبوط اور معروف حریف سیاسی جماعتوں کو اپنے اپنے دور میں سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی کے باعث لگنے والے زخم طویل مدت تک چاٹنا پڑے تھے۔ پھر انہوں نے ’’مشاورت‘‘ سے ہی ’’فلور کراسنگ‘‘ ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ کے خلاف قانون بنایا۔ پھر خود ہی ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ کی طرح ڈالی پھر ’’فارورڈ بلاک‘‘ کا ڈول ڈالا۔ ’’قانون خود اپنا راستہ بناتا ہے‘‘ کے مصداق پنجاب اسمبلی کے کئی اپوزیشن ارکان نے حکومت کے ساتھ رنجش کی باتیں بھلاتے ہوئے اور ’’وزیراعلیٰ تو پورے پنجاب کے ہیں‘ اپوزیشن کے بھی‘‘ کہہ کر محبت کی ’’پینگیں‘‘ بڑھانا شروع کر دیں۔ یہ سب کچھ ’’نوٹوں‘‘ والا طرزسیاست تو نہیں تاہم ’’میسنا‘‘ اور ’’مہذب طریقہ‘‘ تو ہے۔ اس لئے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ چند دن کی بات ہے‘ سینٹ الیکشن گزر جائینگے۔ گرد بیٹھ جائیگی۔ حافظے سب کچھ بھول جائیں گے۔ ’’کاروبار سیاست‘‘ کے مناظر بھی ’’یاد ماضی‘‘ ہو جائیں گے کیونکہ …؎
یہاں الٹی گنگا بہتی ہے
اس دیس میں اندھے حاکم ہیں
نہ ڈرتے ہیں نہ نادم ہیں
نہ لوگوں کے وہ خادم ہیں
ہے یہاں پہ کاروبار بہت
اس دیس میں گردے بکتے ہیں
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر
اس لئے سیاست کے اس ’’حمام‘‘ میں سبھی ننگے ہیں‘ معاملات سیاست ‘ بات کہنے کی نہیں‘ تو بھی تو ہرجائی ہے۔‘‘ جیسے ہی ہیں۔
قیمت مجھے معلوم ہے‘ تم نام بتائو
اس شہر میں ہر شخص کا ایمان بکا ہے

ای پیپر دی نیشن