میں نے سابق چیف جسٹس پاکستان ارشاد حسن خان کی خودنوشت کو ’’ارشاد نامہ‘‘ کے بجائے ارشادات عالیہ کیوں لکھا ہے، اسکی توضیح آگے آئیگی۔ تین سابق چیف ججز کی سوانح عمریاں ریکارڈ کرنے اور انھیں کتابی شکل میں شائع کرنے کا اعزاز مجھے حاصل ہوا۔ ان میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال (فرزند اقبال) چیف جسٹس پاکستان ڈاکٹر نسیم حسن شاہ اور چیف جسٹس پاکستان سجاد علی شاہ شامل ہیں۔ جسٹس جاوید اقبال اور جسٹس نسیم حسن شاہ کی سوانح عمریوں کے دو دو ایڈیشن شائع ہوئے۔ ازاں بعد جسٹس نسیم حسن شاہ اور جسٹس سجاد علی شاہ نے انگریزی میں اپنی سوانح عمریاں لکھیں اور شائع ہوئیں۔ جسٹس سجاد علی شاہ کی داستان حیات ریکارڈ کرنے کیلئے مجھے کراچی جانا پڑا۔ چوں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ کراچی میں رہائش پذیر تھے۔ سابق چیف جسٹس ارشاد حسن کی خود نوشت ’’ارشاد نامہ‘‘ شائع ہوئی تواس پر متعدد کالم لکھے گئے۔ ان کالموں کے مطالعہ کے بعد مجھے ’’ارشاد نامہ‘‘ پڑھنے کا اشتیاق ہوا۔ اس کیلئے مجھے زیادہ عرصہ انتظار نہیں کرنا پڑا کہ مجھے یہ کتاب جسٹس ارشاد حسن خان کے دستخط کے ساتھ مل گئی۔ جسے میں اپنا اعزاز سمجھتا ہوں۔
’’ارشاد نامہ‘‘ تقریباً ایک ہفتہ میرے زیر مطالعہ رہی۔ 310 صفحات پر مشتمل اس ’’ارشاد نامہ‘‘ کو پڑھنے کے بعد میں پورے ہوش و حواس سے اس کو ارشادات عالیہ لکھ رہا ہوں۔ پیشہ وارانہ صحافتی امور کی انجام دہی کے دوران ریٹائرڈ ججز سمیت عظیم شخصیات سے ملاقاتوں کا شرف حاصل رہا۔ مگر جسٹس ارشاد حسن خان کے نیاز حاصل نہ ہو سکے۔ ’’ارشاد نامہ‘‘ پڑھنے کے بعد مجھے اس کمی کا احساس نہیں ہوا کہ مجھے انکی شخصیت سے مکمل جانکاری حاصل ہو گئی۔ جسٹس ارشاد حسن خان کی سوانح حیات ان تمام خصوصیات، معلومات اورکوائف کی حامل ہے جو ایک اچھی سوانح عمری میں تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ ارشاد حسن خان نے عدالتی اور ذاتی زندگی کو اس فطری اور سلیس انداز میں بیان کیا ہے کہ ان کی زندگی کے تمام مخفی گوشے روشن ہو گئے ہیں۔ ریٹائرڈ ججز کے علاوہ بعض دیگر شخصیات کی سوانح عمریاں میں نے ریکارڈ اورشائع کیں۔ سوانح عمریاں، میں دلچسپی سے پڑھتا ہوں۔ ’’ارشاد نامہ‘‘ ان تمام سوانح عمریوں سے مختلف ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ مجھے ’’ارشاد نامہ‘‘ پڑھنے کا موقع حاصل ہوا۔ اگر اس کتاب کا مطالعہ نہ کر پاتا تو یہ سمجھتا کہ میں ایک اہم کتاب پڑھنے سے محروم رہا۔ ’’ارشاد نامہ‘‘ پڑھنے کے بعد نہ صرف آپکے علم میں اضافہ ہو گا بلکہ اسکے ساتھ طمانیت بھی حاصل ہو گی۔ جو افراد بے چینی اور Anxiety کا شکار ہیں، ان کو میرا مشورہ ہے کہ انکی بے چینی ختم ہو جائیگی اور وہ پرُسکون ہو جائینگے۔ ’’ارشاد نامہ‘‘ میں قرآن حکیم کی آیات، مشاہیر کے اقوال، اللہ سے تعلق اور دین سے لگاؤ بھی آپ کو پڑھنے کو ملے گا۔ یہ داستان اس قدر سبق آموز ہے کہ منفرد کہلائی جائے گی۔ جسٹس ارشاد حسن خان کو ابتدائی تعلیم، کالج میں داخلہ، تلاش روزگار کے سلسلے میں جن مراحل سے گزرنا پڑا، ان کو لکھنے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا۔ یہ ان کی عظمت کا ثبوت ہے۔ کتاب پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن حکیم کا مطالعہ ترجمے، مفہوم اور تفسیر کے ساتھ کرتے ہیں۔ وہ صرف قرآن خوانی نہیں بلکہ قرآن فہمی کے قائل ہیں۔ انہوں نے تمام زندگی اس قول پر عمل کیا ’’ہمت نہ ہارو۔ زندگی کا ہر لمحہ جیو‘‘
صفحہ نمبر 83-84 پر جسٹس ارشاد حسن خان لکھتے ہیں ’’تاریخ میں جن لوگوں نے بھی کوئی ترقی کی ہے وہ وہی لوگ تھے جو اپنے ماحول میں دباؤ کے حالات سے دوچار ہوئے۔ جنہوں نے ’’انّ مع العسر یُسرا‘‘ کے تخلیقی راز کو جانا۔ جنہوں نے زندگی کے میدان میں اس حوصلہ کے ساتھ قدم رکھا کہ وہ عسر کی زمین سے یسر کی فصل اگائیں گے‘‘ ۔ قرآن کریم نے آسانیاں حاصل کرنے کا طریقہ یہ بتایا ہے کہ تم مشکلات کا سامنا کرو۔ جو مشکلات کا سامنا نہیں کرتا، اسے آسانیاں نصیب نہیں ہو سکتیں۔ حیات جاوداں اندر ستیزاست۔
جسٹس ارشاد حسن خان نے مسلم ماڈل ہائی سکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کا ذکر کیا۔ میں نے بھی اسی سکول سے چھٹی سے میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ محمد اسحاق ڈار (سابق وزیر خزانہ) میرا کلاس فیلو تھا۔ جسٹس نے اس دور میں اپنے خراب معاشی حالات کا ذکر کیا اور ہیڈ ماسٹر عبدالعزیز شیخ (ایم اے عزیز) کو سکول چھوڑنے کا بتایا۔ ہیڈ ماسٹر نے وجہ پوچھی تو انہوں نے سکول فنڈ سے فنڈ جاری کر دیا اور اس طرح تعلیم جاری رکھی۔ بعض ایسے لوگ بھی ہیں کہ جب وہ اعلیٰ منصب پر فائز ہوتے ہیں تو بچپن کی ان باتوں کا تذکرہ نہیں کرتے، جن سے وہ گزرے تھے۔ جسٹس ارشاد حسن خان، چیف جسٹس پاکستان اور قائم مقام صدر پاکستان باوصف ان تمام باتوں اورچھوٹی چھوٹی ملازمتوں کا بھی ذکر کیا جن سے انہیں گزرنا پڑا۔ اس سلسلے میں محمد اسحاق ڈار کی مثال دیتا ہوں۔ جو اب لندن میں خود ساختہ جلاوطنی کے دن گزار رہا ہے۔ اس کا انٹرویو بی بی سی سے نشر ہوا۔ اس انٹرویو کے اینکر سٹیفن سکر تھے۔ ایک سوال کے جواب میں اسحاق ڈار نے کہا۔ میرے والد کا سائیکلوں کا کاروبار تھا۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے گورنمنٹ کالج اور پھر بیرون ملک تعلیم حاصل کی۔ وہ مسلم ماڈل ہائی سکول کا ذکر نہیں کرتا۔ شاید وہ سمجھتا ہے کہ یہ سکول اسکے معیار کے مطابق نہیں تھا۔ میں لکھ چکا ہوں کہ وہ میرا سکول فیلو تھا۔ ان دنوں وہ میرے آبائی گھر (ہجویری محلہ۔ عقب داتا دربار) آتا اور میں اس سے ملنے اسکے آبائی گھر چونا منڈی جایا کرتا۔ اسکے والد چنن دین عرف بودی کی سائیکلوں کی دکان تھی جو کرایہ پر دی جاتیں۔ اسحاق ڈار کے والد کو میں نے سائیکل کی ٹیوب میں پنکچر لگاتے بھی دیکھا ہوا ہے۔ یعنی اس کا تعلق لوئر مڈل کلاس سے تھا۔ پھر وہ ارب پتی کیسے بن گیا۔ یہ ایک راز ہے۔ جسٹس ارشاد حسن خان طویل عرصہ انصاف کی کرسی پر بیٹھے، بہت اہم اور نازک مقدمات کا فیصلہ کیا، جن میں ظفر علی شاہ کیس بھی شامل ہے۔ ہر کیس میں انہوں نے انصاف کے ترازو کو تھامے رکھا اور ڈنڈی نہیں ماری۔ وہ ہمیشہ ایک سچے منصف کا رول ادا کرتے رہے۔ ان پر ملک وقوم کو ناز ہے۔
’’ارشاد نامہ‘‘ ملنے کے بعد میں بھی جسٹس ارشاد حسن خان کے حلقہ احباب میں شامل ہو گیا ہوں۔ فیس بک پر ہر صبح انکے دعائیہ کلمات پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ’’ارشاد نامہ‘‘ کو پڑھنے کے دوران میں نے متعدد جگہوں پر نشان لگایا کہ ان پر لکھوں گا مگر Space کا مسئلہ حائل ہو گیا۔ ادارتی صفحہ (جہاں ہمارے کالم شائع ہوتے ہیں) ہاف ہو گیا ہے۔ اس لیے کالم کی گنجائش محدود کر دی گئی ہے۔ میری اب تک تیس کتابیں شائع ہو چکی ہیں، جن میں خود نوشت ’’میرا عہد جو میں نے لمحہ لمحہ جیا‘‘ بھی شامل ہے۔ میری اہلیہ نے خود نوشت سمیت میری کسی کتاب کا مطالعہ نہیں کیا مگر میں نے اسے ’’ارشاد نامہ‘‘ پڑھنے کی خصوصی تلقین کی ہے۔ یہی تلقین ان افراد کو بھی کرنا چاہوں گا جنھوںنے ابھی تک ’’ارشاد نامہ‘‘ کا مطالعہ نہیں کیا ۔ ’’ارشاد نامہ‘‘ کا مطالعہ کیے بغیر آپ کی زندگی ادھوری ہے۔