8 فروری دوشنبہ کی شام ہماری پیاری امی گوہر بشیرصاحبہ اسی برس کی عمر میں اس دارِ فانی سے راہ روِ مُلکِ بقا ہوگئیں ۔ سچ یہ ہے کہ ہماری دنیا ویران ہوگئی ۔ ہنستی بستی زندگی پژمُردہ ہوگئی ۔
رنج کتنا بھی کریں ان کا زمانے والے
جانے والے تو نہیں لوٹ کے آنے والے
کیسی بے فیض سی رہ جاتی ہے دل کی بستی
کیسے چپ چاپ چلے جاتے ہیں جانے والے
ایک پل چھین کے انسان کو لے جاتا ہے
پیچھے رہ جاتے ہیں سب ساتھ نبھانے والے
امی پرانے وقتوں کی ایک سادہ لوح خاتون تھیں ۔ مشرقیت ان میں کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی تھی ۔ اگرچہ وہ بہت زیادہ پڑھی لکھی نہیں تھیں تاہم وہ اعلیٰ انسانی اقدار، جملہ تہذیبی روایات ،رکھ رکھاؤ ،وضع داری اور مہمان نوازی کا مجسمہ تھیں ۔ ان کے ظاہر و باطن میں کوئی تفاوت نہ تھا۔ قول و فعل میں تضاد نہ تھا۔وہ دل کی جتنی صاف تھیں ، لہجے کی اتنی ہی نرم تھیں ۔ ہمارے ہاں عموماََ دل کے کھرے زبان کے کڑوے اور لہجے کے تلخ ہوتے ہیں ۔لیکن ان کے نزدیک یہ کوئی بہت مناسب بات نہیں تھی کہ انسان صاف گوئی کی اوٹ میں دوسروں کی دل شکنی کا ارتکاب کرتا رہے ۔اس سلسلۂ گُرگ و خوک میں ہمارے لیے امی کا وجود ایک شجرِ سایہ دار کی طرح تھا جس کی گھنی چھاؤں میں پورا خاندان پناہ لیتا تھا۔ وہ بہت کم کسی سے ناراض ہوتی تھیں ۔ غصے پر ان کو بے حد قابو تھا۔ مزاج میں ٹھہراؤ اور اعتدال تھا ۔ ان کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ ہر کسی پر اندھا اعتماد کر لیتی تھیں۔ ہماری مشرقی خواتین کے وہ آثار جو اب شہری زندگیوں سے مٹتے جارہے ہیں ، ان میں بہت نمایاں تھے ۔
میرے ابوبریگیڈئیر (ر) بشیر احمد مرحوم 1971ء کی جنگ میں دشمن سے نبرد آزما رہے۔ اس سے قبل 1965ء کی جنگ میں بھی انھوں نے داد شجاعت وصول کی ۔ ان کی ڈیوٹی اگلے مورچوں پر تھی اور وہ براہِ راست دشمن سے دُوبدُو تھے ۔ مجھے اچھے سے یاد ہے کہ کس طرح امی نے جنگ کے پورے عرصے میں ہماری ہمت بڑھائی ۔ ہمیں حوصلہ دیا اور تاریخ اسلام کے واقعات سنا کر ہمارے ولولوں کو تازہ رکھا۔انھوں نے خود گاڑی چلانی سیکھ لی تھی اور مردانہ وار تمام امور نپٹا رہی تھیں ۔ انھوں نے پل بھر ہمیں ابوکی عدم موجودگی کا احساس نہیں ہونے دیا ۔ وہ خاتونِ خانہ تھیں لیکن جنگ کے عہد میں وہ ایک ہمہ جہت اور متحرک کردار بن کر سامنے آئیں اور سارے گھر کو سنبھالادیا۔ یہ امی کی تربیت اور صحبتِ صالح کا فیضان تھا کہ جنگ کے مشکل ترین ایام میںہمارے حوصلے جوان اور عزائم بلند رہے ۔
امسال جنوری کے اواخر میں کرونا وائرس نے ہمارے گھر کی راہ لی ۔ میں خود اس عتاب کا شکار ہوئی اور ہم سب گھر والوں کو گوشۂ عُزلت میں مقید ہونا پڑا ۔ امی پر بھی کرونا کاوار ہوااور اپنا اثردکھا گیا۔ وہ تقریباََ بیس سال سے پھیپھڑوں کے مرض میں مبتلا تھیں اور بہت احتیاط اور پرہیز کے سہارے زندہ تھیں ۔ ہر وقت ذکر وشکر ان کا معمول تھا۔تسبیحات کا خاص اہتمام کرتیں اور ہر ملنے والے کو دعا دیتی تھیں۔ ان کی دعا رسماََ یا رواجاََ نہیں ہوتی تھی بلکہ وہ صدقِ دل سے بارگاہِ خداوندی میں التجاکی قائل تھیں۔ اگر کوئی ان سے دعا کے لیے کہتا تو وہ اس کو یاد رکھتیں اور دعا کا خاص اہتمام کرتیں ۔ بعد میں یہ ضرور پوچھتیں کہ میں نے فلاں صاحب کے لیے دعا کی تھی ، ان کا کام ہوا کہ نہیں؟ انھیں اپنی دعا پہ بڑ ا مان تھا ۔گھر میں امی کوجاء نماز پہ دیکھ کر اکثرمجھے جوہر کانپوری کا یہ شعر یاد آجاتا:
تخت پر ہے جاء نماز اور رحل پر قرآن ہے
ہمارے گھر میں آج بھی ایمان کا سامان ہے
سنے ہوئے اور بیتے ہوئے میں واقعتاََبہت فرق ہوتا ہے ۔کرونا کے زیرِ عتاب آنے کے بعد ہمیں ایک نئے جہان سے واسطہ پڑا ۔ دوہفتے مکمل تنہائی میں رہ کر دنیا کی بے ثباتی کا احساس گہرا ہوتاگیا۔موت اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے جس سے کسی کو رُستگاری نہیں ۔سب جانے کے لیے آئے ہیں ۔ آج تک کوئی نہیں رہا۔ آئیندہ بھی کوئی نہیں رہے گا ۔ اس عارضی جہان میں ہم کیوں نفرتوں کاکاروبار کرتے ہیں ؟ حسد، بغض، کینہ ، غرور، تکبر اور حرص کی سوداگری کرتے ہیں ۔ اپنے ہی جیسے انسانوں کے حلقوم پہ چھری چلاتے ہیں ۔ انفرادی اور اجتماعی سطح پرآج کا انسان تاریکیوں کے قعرِ مذلت میں گر چکا ہے ۔ خوفِ خدا ناپید ہے ۔ رشتوں کا احساس عنقا ہے۔ انسانی اقدار مائل بہ زوال ہیں۔ نفسا نفسی کا عالم ہے ۔ ہر طرف کھینچاتانی ہے ۔ افتخارعارف نے اسی منظر نامے کو شعرکے پیکر میں سمویاہے:
وقت نے ایسے گھمائے افق آفاق کہ بس
محور گردش سفاک سے خوف آتاہے
لیکن اس دورِ فسوں کار میں بھی بہت سے مردانِ خدا ایسے بھی ہیں جو سودوزیاں سے ماورا ہوکر اعلیٰ انسانی اقدار کو زندہ رکھے ہوئے ہیں ۔ شاید انھی آشفتہ سروں کے دم سے یہ دنیا قائم ہے ۔ہماری امی پرجب کرونا وائرس کا حملہ ہوا تو انھیں ملٹری ہسپتال راولپنڈی میںموجود کرونا وارڈ میں منتقل کردیا گیا جہاں کے فرض شناس طبی عملے نے ان کی دیکھ بھال میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا ۔میڈیکل اور پیرامیڈیکل سٹاف کا جذبہ لائقِ دید تھا۔ ڈاکٹروں کے عزائم آج بھی بلند ہیں ۔ کرونا وائرس کو وارد ہوئے تقریباََ ایک سال ہونے کو ہے لیکن ہمارے مسیحا ؤں کے ارادوں میں کوئی جھول آیا ہے اور نہ ان کے چہروں پہ تھکاوٹ کے کوئی آثار ۔ مسلسل محنت اور لگن کی ان گنت داستانیں ہیں جو یہ مسیحا رقم کر چکے ہیں ۔ صبح وشام اپنے ہی جیسے انسانوں کو اس متعدی مرض کے منہ میں جاتا دیکھ کر ان کے قدم نہیں ڈگمگائے۔بہت سے ڈاکٹرز شہاد ت گاہ الفت میں قدم رکھ چکے ہیں لیکن خدمت کاجذبہ بھی کیا آتشِ سوزاں ہے کہ عبد الستار ایدھی جیسے بوڑھوں کو جواں ہمت رکھتا ہے ۔ اس عارضی زندگی میںدوسروں کے لیے جینا ہی در ا صل حیاتِ جاوداں ہے ۔ خواجہ میردرد کے بقول:
خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا سے بندوں سے پیار ہوگا
٭…٭…٭