طویل عرصہ سے عالمِ اِسلام میں نصاب مِدارس کی نظرثانی پر مشتمل تجاویز و مساعی کا سلسلہ جاری ہے جو گاہے بگاہے حکومتی ایوانوں میں بھی صدا لگا دیتا ہے۔ تاہم دینی مدارس کے رَوَاں نصاب کا بدلنا جس حِکمت و باریک بینی اور بصیرت و عالی دماغی نیز روحِ اسلام اور حالات و ضروریاتِ زمانہ کی گہری واقفیت کا متقاضی ہے شاید اَب تک اہلِ مدارس اور ایوان ہائے حکومت میں اِس درجہ کی باصلاحیت و خداداد شخصیات کا ظہور نہیں ہوا یا اُنہیں اُن کے کاموں سَمیت نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔ بہرحال سچ کچھ بھی ہو عملی نتیجہ یہی ہے کہ ہمارے مدارس میں پڑھائی جانے والی کُتب‘ نظامِ تعلیم اور مدرسہ کے ماحول کا تعلق آج سے دو سَو یا تین سَو سال پہلے سے ہے اَور ہم اِمام‘ خطیب‘ مفتی یا ایک اَور مُدَرِّس سے زیادہ‘ پیدا نہیں کر رہے ہیں۔ نیز یہ کہ محض ایک ہی رُخ پر کارآمد اِن ہستیوں میں بھی معیارِ مطلوب حاصِل نہیں ہو پا رہا ہے۔ یہ بات تو اظہر مِن الشمس ہے کہ انسانی زندگی کی ضروریات‘ امامت و خطابت اور إفتائِ و تدریس سے کہیں زیادہ اور متنوّع ہیں۔ اِس وجہ سے یہ مدارسِ زندگی کے سَب شعبوں کا نہ تو بوجھ اٹھا سکتے ہیں اَور نہ ہی ہر میدان کی اہل اور کارآمد ہستی برآمد کر سکتے ہیں۔
-2اَب جب کہ یہ واضح ہو گیا ہے کہ دینی مدارس محض دین و فقہ یا مسلک کی تعلیم دینے کے لیے بنائے گئے ہیں یا کم اَز کم عملاً یہی خدمت سَر انجام دے رہے ہیں تو یہ بات اَز خود لَغو و ناجائز ٹھہرتی ہے کہ اُن سے زندگی کے ہر شعبے میں خدمات انجام دینے والے علماء پیدا کرنے کی یا ہَر شُعبہ کے ماہرین و جدید تعلیمیافتہ افراد تیارکر کے میدان میں لانے کے خواہش یا مطالبہ کیا جائے‘ حتّٰی کہ اگر کوئی دینی مَدرسہ اَز خود اِس بات کا مدّعی ہے تو اُس کا اِدّعا بھی یقیناً ناجائز اور غلط ہی قرار دیا جائے گا۔ اِس لیے کہ دورِ جدید کے پیدا کردہ بے پناہ شُعبوں اور وسعتوں کی مہارت تو کُجا محض شناسائی سے بھی مدارِس کے اساتذہ و طلباء ہی نہیں کرتا دَھرتا بھی محروم ہیں۔
-3 اِس وجہ سے یہ سوال کرنا کہ مدارِس انجنیئر یا ڈاکٹر اور ماہرین معاشیات و زراعت پیدا کیوں نہیں کر سکتے‘ نہایت درجہ نامعقول اور احمقانہ ہے‘ کیا میڈیکل کالج سے انجنیئرز اور لاء کالجز سے بینکرز فارغ التحصیل ہو کر نکلتے ہیں؟ اگر نہیں تو پِھر زندگی کے محض اُس شُعبہ سے جس کا تعلق مذہبی فرائض کی ادائیگی سے ہے وابستہ تعلیمی اِداروں پر یہ نارَوا بوجھ ڈالنے کی پیہم رَٹ کیوں لگائی جا رہی ہے؟ کیا یہ محض نادانی ہے یا عیّاری کا ایک بدلا ہوا رُوپ؟
-4 اِس بات کے قرار پا جانے کے بعد کہ دینی مدارس مختلف مسالک کی فیکٹریاں ہیں۔ اَب آتے ہیں اِس بات کی جانب کہ اِن میں حکومتی مداخلت کی وجوہات ہیں
(ا)۔ مسالک کی اختلافی تعلیم سے معاشرہ مذہبی طور پر تقسیم ہوتا ہے اور یہ تقسیم گاہے فساد فی الارض میں بدل جاتی ہے۔ یہ بات اپنی جگہ پر حق ہے کہ مذہبی اختلافات میں جب شدت آ جاتی ہے تو لوگ آپس میں قتل و غارت کرنے لگتے ہیں لیکن ایسا تو قومی‘ لِسانی‘ علاقائی اور طبقاتی اختلافات کے نتیجہ میں بھی ہوتا ہے پھر کیا سب قوموں کو مِٹا کر ایک قوم بنا دیا جاتا ہے یا اُن کے مابَین حق تلفی اور ظلم کے اسباب ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے؟ اسی طرح مسلکی اختلافات کا معاملہ ہے انہیں اچھے برتاؤ اور تدابیر سے کم تو کیا جا سکتا ہے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ سو مدارِس کے نظام میں رَواداری کی تربیت کی حد تک ہر مطالبہ جائز مانا جا سکتا ہے بشرطیکہ اُس کی حدود بھی جائز ہوں لیکن یہ امید رکھنا کہ مدارس دین و مسلک کے بجائے تعلیم جدید کے مراکز بن جائیں نہ صرف مدارس کے بلکہ دین کے ساتھ بھی دشمنی ہے۔
-5 اَب آتے ہیں اِس سوال کی طرف کہ دینی مدارس کے نظام کی الگ سے ضرورت ہی کیا ہے آخر؟ تو اِس سوال کا جواب دینی مدارس کے کار پَردازوں کے بجائے اصل میں مسلم معاشرہ کے پاس ہے۔ اِس سوال کا جواب وزیرِ اَعظم‘ صدر‘ آرمی چیف اور دیگر ذمہ داران رِیاست دیں کہ آیا مذہب اُن کی اور پاکستانی معاشرہ کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اور یہ کہ کیا اِس دَور میں جسے آپ خود تخصّص(SPECIALISATION) کا دَور کہتے ہیں‘ ایسے لوگوں سے دین کی رہنمائی کا کام لیا جا سکتا ہے جنہیں پڑھائے تو جائیں فزکس اور کیمسٹری اور طِب و انجنیئرنگ کے مضامین‘ اَور امید اُن سے کی جائے فتویٰ و قضاء اور امامت و خطابت کے فرائض کی ادائیگی کی۔ اِس صریح تضاد اور احمقانہ طرزِعمل کو زندگی کے کِس شعبہ میں کامیابی کی دلیل سمجھا گیا ہے اور خود اپنے ملک میں آپ دوسرے کون سے شعبوں سے یہ حُسنِ سلوک کر رہے ہیں جس کا مظاہرہ دینی مدارس کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ شاید آپ صاف لفظوں میں یہ کہنے سے گریزاں ہیں کہ دین و مذہب کی آپ کو ضرورت نہیں اور معاشرہ کی ضرورت پوری کرنے کے لیے آپ تیار نہیں ہیں۔
-6 ایک اعتراض عموماً دینی مدارِس کے فارغ التحصیل علماء پر یہ بھی کیا جاتا ہے کہ یہ دَس دَس سال کی تعلیم حاصِل کر کے آتے ہیں مگر معاشرہ کا ’’کماؤ پوت‘‘ نہیں ہوتے اور اُس پر بوجھ بن جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس اعتراض کو سُن کر دِل خون کے آنسو روتا ہے۔ یہ کِیسے افراد ہیں جو دین و مذہب کے حوالہ سے عملی رہنمائی فراہم کرنے والے طبقات و اَفراد پر وہ الزام لگا رہے ہیں جو دَراصل اِن کا اپنا گناہِ ہے۔انگریزی دَور کے غلامانہ ذہن اِس سوال کا جواب ضرور دیں کہ غاصِب و غدّار انگریز انتظامیہ کو تو اسلامی مدارس‘ مساجد‘ اسلامی عدالتوں اور دارالاِفتاء کی یقیناً کوئی حاجت نہ تھی بلکہ اِن کی ترقی میں اُن کا زوال پِنہاں تھا مگر آپ کو کیا تکلیف ہے کہ آپ مسلم معاشرہ کو درکار بنیادی ضرورت کے اداروں کی سرپرستی کے بجائے دشمنی پر تُلے رہتے ہیں۔ مسجد کا ادارہ‘ جِسے دورِ حاضِر میں خادمِ و مؤذن‘ اِمام و خطیب کے لیے اُن افراد کی ضرورت ہے جو باقی کاموں سے فارغ ہوں‘ آخِر کِس وجہ سے بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا ہے؟ کیا معاشرہ کے خادِم اِن افراد کا حق نہیں کہ یہ قابلِ عزت مشاہرات حاصِل کریں اور مزید دلچسپی سے اہل محلہ کی دینی تربیت کر سکیں؟
آخِر ہر ادارہ سے وابستہ فرد تو معاشرہ کا ’’کماؤ پوت‘‘ نہیں ہوتا۔ فوج اور پولیس ریاست کی سالانہ آمدن میں کیا اضافہ کرتے ہیں کہ انہیں باقاعدہ تنخواہیں اور پینشنز دی جاتی ہیں؟ آپ کہیں گے کہ وہ اِس معاشرہ کی حفاظت کرنے کی خِدمت کے عوض اس کی حقدار ہیں تو اِسی معاشرے کی خدمت کے عوض میں مساجد و مدارس میں زندگی کھپا دینے والے کیوں حقدار نہیں؟
-7 اَب آتے ہیں اِس معاملہ کے سب سے حسّاس پہلو کی طرف اور وہ یہ ہے کہ بعض مدارِس کے اساتذہ و مہتمم حضرات کے دماغوں میں یا دِل کے کسی گوشہ میں یہ خیال ضرور جاگزیں رہتا ہے کہ مدارس کا نظامِ تعلیم و تربیت دورِ حاضر کے نظامِ تعلیم و تربیت کا نہ صرف متبادل بننے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ اس سے بدرجہا بہتر ہے۔ سچ یہ ہے کہ یہ ایک سادہ سا دعویٰ نہیں‘ اس کے کئی پہلو ہیں جن میں سے ہرایک لائق تدبر ہے۔ جہاں تک اسلامی اور اخلاقی تربیت کا معاملہ ہے تو بلاشبہ مدارس آج تک ہر نوع کے زوال سے گزرنے کے باوجود اسلامی کردار و اخلاق اور شخصیت سازی میں دورِ حاضر کے تمام اداروں سے بہتر کردار ادا کر رہے ہیں۔ اسکول کالج اور یونیورسٹی سے پڑھ کر آنے والی نسل اگر اپنے ماں باپ کا اَدَب ہی کر لے تو بَسا غنیمت سمجھا جاتا ہے۔ صحیح تر الفاظ میں یہ ادارے تو اَخلاق باختگی اور کردار کُشی کی فیکٹریاں ہیں کُجا کہ اسلامی شخصیت کی نشوونما کی اِن سے اُمید ہو۔
رہ گیا جدید تعلیمی اداروں کے متبادِل کردار‘ تو ظاہر ہے کہ یہ ممکن نہیں ہے۔ اس لیے کہ جیسے فزکس اور کیمسٹری پڑھنے سے انسان فقیہہ اور مفتی نہیں بن سکتا ایسے ہی فقہ و حدیث اور عربی ادب و تفسیر پڑھ کر ڈاکٹر انجنیئر‘ سائنسدان اور بینکر بھی نہیں بن سکتا۔ اِس لیے مدارس اور حکومتی اداروں میں جاری لاطائل کشمکش کا خاتمہ صرف اسی صورت ممکن ہے کہ ہم اِس بات پر جَم جائیں کہ مدارِس اسلامی معاشرہ کی مذہبی ضروریات پوری کرنے کے لیے وجود میں آئے ہیں اِس لیے ہم سے بات کرنی ہے تو اِس بات کو تسلیم کرو کہ اِس معاشرہ کی وا حد بنیاد مذہبِ اسلام ہے اور ہم اِس بنیاد کو مضبوط کر رہے ہیں۔ دین کی اُصولی باتوں میں ہمارا اتحاد و اتفاق ہے اور تعبیر میں اگر اِختلاف ہے بھی تو وہ مضرِ معاشرہ نہیں ہے۔ اِس کے بعد ہمیں تعلیمی نظام میں اساتذہ کی آسامیوں اور عدالتوں میں قضاۃ کی گنجائش بنانے اور مساجد کے آئمہ و خطباء کی سرکاری ملازمین جیسی مراعات کے حصول کے لیے دباؤ ڈالنا بھی آسان ہو جائے گا۔ جب تک حکومت و ریاست یہ نہ تسلیم کر لیں کہ مدارس معاشرہ کی ایک مسلمہ ضرورت پوری کر رہے ہیں۔ اس وقت تک اُن کا رویہ مثبت نہیں ہو سکتا اور جب تک ہمارے مؤقف میں یہ غیرحقیقی اِدّعا شامِل رہے گا کہ ہمارا نظامِ تعلیم دورِ حاضر کے تعلیمی نظام کا مکمل متبادِل نظام ہے نہ ہمارے ساتھ اﷲ کی مدد آ سکے گی اور نہ ہی حکمرانوں کی رَوش بدلے گی۔