اسلام آباد (خصوصی رپورٹر+ نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ میں آغا سراج درانی کیس کی سماعت آج پھر ہوگی۔ درخواست ضمانت پر سماعت چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے کی۔ وکیل سلمان اکرم راجہ نے موقف اپنایا کہ نیب کی جانب سے آغا سراج درانی پر ایک ارب ساٹھ کروڑ کا الزام لگایا گیا ہے، اور 10 کروڑ مالیت کی گھڑیاں بتائی جارہی ہیں۔ میرے حساب سے آغا سراج درانی کے اثاثے تیس سے پینتیس کروڑ ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا آغا سراج درانی نے 82ملین کی ویلتھ اسٹیٹمنٹ ظاہر کی کیا وہ بھی درست نہیں، جس پر وکیل نے کہا آغا سراج درانی اور اہل خانہ کے پاس نو سو ایکڑ زرعی اراضی ہے، اثاثہ جات کو دو دو مرتبہ بھی ظاہر کیا گیا ہے۔ آغا سراج درانی کے جو ایک ارب کے بے نامی دار ظاہر کیے گئے ہیں وہ ممکن ہے کسی اور کے ہوں۔ جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا دس کروڑ مالیت کی گھڑیاں کہاں سے برآمد ہوئیں۔ وکیل نے کہا گھڑیاں آغا سراج درانی کے لاکر سے برآمد ہوئی ہیں، 1940اور 1950 ماڈل کی رولیکس گھڑیاں ہیں، گھڑیوں کی مالیت کا تعین کراچی کی نجی کمپنی کو گھڑیوں کی تصاویر بھجوا کر کرایا گیا ہے۔ نیب نے آغا سراج درانی کی انکم کا تعین درست نہیں کیا۔ چیف جسٹس نے کہا آغا سراج درانی کب کب پبلک آفس ہولڈر رہے ہیں۔ وکیل نے عدالت کو بتایا کہ1988، 1993اور پھر 2008سے آج تک آغا سراج درانی پبلک آفس ہولڈر ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا جن جائیدادوں کا الزام ہے کیا وہ ایف بی آر میں ظاہر ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ سوال یہ ہے جو بے نامی دار ظاہر کیے گئے ہیں کیا وہ آغا سراج درانی کے لیے کام کرتے ہیں۔ نیب کے مطابق منور آغا سراج درانی کا گن مین ہے، اور منور کے پاس کئی ملین موجود ہیں۔ جسٹس عائشہ اے ملک نے کہا منور مبینہ گن مین کے ڈیفنس کے پلاٹ کی فوٹو کاپی آپ کے قبضے میں کیا کر رہی تھی۔ جس پر وکیل نے کہا کیا یہ ممکن نہیں کہ جو آغا سراج کے ساتھ کام کر رہا ہے وہ ان سے بالا اپنی سرگرمیاں کر رہا ہو۔ چیف جسٹس نے کہا مجھے تو تعجب اس بات کا ہے کہ نیب نے کروڑوں روپے مالیت کی شاٹ گنز کو شامل نہیں کیا۔ آج ہالینڈ اینڈ ہالینڈ کی شاٹ گن کی مالیت کروڑوں روپے ہے۔ بنیادی چیز یہ وکیل ملزم نے یہ بتانی ہے کہ شہری جائیدادیں کیسے بنائی گئیں۔ گاڑیوں کے دستاویزات بھی آغا سراج درانی سے برآمد ہوئے۔ جس پر وکیل نے کہا آغا سراج کچھ گاڑیوں کی ملکیت سے انکار نہیں کرتے۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا آغا سراج درانی کو ضمانت درکار نہیں۔ آغا سراج جیل میں نہیں بلکہ اپنے گھر میں مکین ہیں۔ جس پر وکیل نے کہا یہ معاملہ ابھی میرے سامنے آیا ہے، اس سے قبل مجھے کوئی آگاہی نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا قانون سب کے لئے برابر ہے۔ عدالت گھر کو جیل قرار دینے والے معاملے کو بھی دیکھے گی۔ جس کے بعد وقت کی کمی کے باعث کیس کی مزید سماعت اگلے روز بدھ تک ملتوی کردی گئی۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ غلط طریقے سے کمایا گیا پیسہ تو محفوظ نہیں رہتا۔ چیف جسٹس نے آغا سراج کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ جیل ہر ایک کے لیے برابر ہونی چاہیے، آغا سراج درانی کے پاس ان کے لیڈر کی اعلیٰ مثال موجود ہے، آپ کے لیڈر نے اتنے سال جیل کاٹی ہے تو آپ کیوں نہیں کاٹ سکتے؟۔
آغا سراج درانی کے لیڈر نے اتنے سال قید کاٹی وہ کیوں نہیں کاٹ سکتے
Feb 17, 2022