آپابشریٰ رحمن کے انتقال پر دل صدمے سے دوچار ہے۔ بہاولپور میں جنم لینے والی بشریٰ رحمن کی تحریریں ہمیں زندگی کے قریب لے جایاکرتی ہیں۔ بشریٰ آپا نے تصنیف وتالیف کے ساتھ سیاست میں بھرپور حصہ لیا۔ وہ میں چادر، چار دیواری اور چاندنی کے عنوان سے کالم لکھا کرتی تھیں۔ یہ ان اہل قلم میں سے تھیں جن کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں تھا۔ وہ ناول لکھتیں، افسانہ لکھتیں، کالم لکھتیں، ان کی تحریریں ہمیشہ معتبر اہل نظر سے داد وصول کرلیں، ان کے قلم نے ہمیشہ گردوپیش کے مناظرکو کیمرے کی آنکھ کی طرح اپنی گرفت میں کیا، ان کی تحریروںمیں معاشرے کے ٹوٹتے بنتے رشتوں، جذبوں کی شکست وریخت ،قدروں کی پامالی اور زندگی کی بے حالی کے سارے رنگ نمایاں ہیں۔
1990ء کی بات ہے کہ مجھے ایک دن آپا بشریٰ رحمن کا فون آیا کہنے لگیں رابعہ رحمن لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا رابعہ رحمن آپ کی بہن ہیں تو اس لیے میں یہ دیکھنے کیلئے کہ لوگ جسے میری بہن سمجھتے ہیں وہ کیسی ہے ملنے کی دعوت دیتی ہوں۔اس طرح بہت سی یادیںمیری یاداشتوںمیںمحفوظ ہیں۔ جب ان کی رحلت کی خبر سنی تو ان سے ملاقاتیں یاد آنے لگیں۔ بشریٰ آپا ایک دبنگ خاتون تھیں ان کے سانحہ ارتحال نے مجھے بہت غمزدہ کردیا، لیکن ایک تخلیق کار کا دنیا سے چلے جانا ایسا نہیں ہے کہ اسے دنیا سے محوکردے۔ وہ جس معیار کی ادیبہ اور جس گفتارکی سپیکر تھیںاس معیار کے لوگ ناپید ہوتے جارہے ہیں، وہ نثرونظم کے رشتے سے ادب کے کتبے پہ نصب تھیں۔ اس کے علاوہ ناول، افسانے، کالم نگاری نے انہیں شہرت کے اعلیٰ درجے پہ رکھا۔ وہ عوامی خاتون تھیں، عام قاری سے اپنے کالموںمیں یوں مکالمہ کرتیں گویا ان کے ساتھ ان کی جھونپڑی میں بیٹھی ہوں۔انہوں نے اپنی ذہانت اور معیار زندگی کو کبھی عام انسان کے درمیان خلیج نہیں بننے دیا، یہی وجہ ہے کہ طلباء وطالبات سے لے کر کم فہم عام قاری نے بھی ان کے جذبات، نظریات سے وابستگی کا اظہار کیا۔ان کا لب ولہجہ، لفظوں کا چنائو اس کی ادائیگی میں ایک مقناطیسی قوت تھی ان کی زبان میں بڑی تاثیر تھی وہ مجمعے میں چھاجاتی تھیں، ایسی ادبی شخصیت تھیں جنہوں نے اپنے گھر کے کمرے کے کونے میں بیٹھ کر نہیں لکھا بلکہ انہوں نے بھرپور سماجی زندگی گزاری۔ اس سماج کے اتار چڑھائو کے ساتھ اس کے تمام شعبوں اور گوشوں کے ساتھ ایک ناظر ایک مشاہد کی حیثیت سے وابستہ رہ کر فکشن لکھا،Nonفکشن لکھا، سیاست کی، گھرداری کی، وقت کی گردان کے ساتھ کچھ حوالے مدہم پڑجاتے ہیںمگر کچھ ریفرنسز ایسے ہوتے ہیں جو مدت تک ان کا حوالہ ہوتے ہیں، ان کے پردہ فرما جانے کے بعد اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم ان کے تمام حوالوں میں ان کامقام اور ادبی قدمتعین کریں کیونکہ انہوں نے ادب کے فروغ میں اپنا معقول اور مقبول حصہ شامل کیا ہے، بشریٰ آپا صرف سماجی حوالے سے ہی نہیں پہچانی جاتیں بلکہ ان کے کالمز کے سلسلے میں فی الواقعہ ادبی چاشنی حالات و واقعات کی گہرائی کے ساتھ مشاہدے بھی ان کی ہر سطر میں جھلکتے تھے وہ ہمہ صفت اور ہمہ جہت شخصیت کی مالک تھیں وہ صحافت، سیاست اور ادب کی تکون کا تاج پہنے ہوئے تھیں، بشریٰ آپاپر مشتاق یوسفی کا خاکہ لکھنا بھی اس بات کی گواہی ہے کہ وہ بلبل پاکستان تھیںان کی سیاسی تقریریں فراموش نہیں کی جاسکتیں۔ ہمدرد کی مجلس شوریٰ میں ان کا مائیک سنبھالنا سب کو اپنی نگاہ میں رکھنا اپنی قائدانہ سوچ اورصلاحیت کو ہرجگہ اجاگرکرنا ان کا خاصہ تھا، وہ کسی بھی شعبے میں ثانوی کردار نہیں رہیں بلکہ مرکزی کردار کے طور پر دنیائے ادب ،صحافت اور سیاست میں اپنے نقوش چھوڑ گئی ہیں،2007ء میں انہیں صدارتی اعزاز(ستارہ امتیاز) سے بھی نوازا گیا۔
آج ان کے جنازے کے پاس ان کے چاہنے والوں کا جم غفیر تھا مگر آج بلبل پاکستان خاموش تھی۔ سارا باغ باغیچہ تو وہاںموجود تھاپھر بشریٰ آپا معطرلفظوں سے زعفرانی گفتگو کیوں نہیں کررہی تھیں۔ بشریٰ آپا آپ تو مجھے جہاںملتیں میرا ہاتھ تھام لیاکرتی تھیں، مگر آج تو آپ سرد موسم کے برفیلے لباس میں لیٹی بندآنکھوں کو جنبش بھی نہیں دے رہی ہیں، میں آپ کے انتظارمیں کھڑی کب سے بے تاب تھی، صدا کیوں سنائی نہیںدیتی جبکہ ہم سب ہمہ تن گوش تھے ۔اب تو آپ کے رخصت کا وقت آن چلاہے، میرے میں اتنی ہمت نہیں کہ آپ کے چہرے کوسفید چادر کو ڈھانپتا دیکھوں،بس دوقدم پیچھے لے رہی ہوں،ہرآہٹ میںایک نوحہ سنائی دے رہا ہے ہرخیال زخم لگارہاہے ،میں آپ کو الوداع کیسے کہوں؟