تین روز قبل کی بات ہے۔ جوہر ٹاؤن ایک قریبی عزیز کی شادی پر جانا تھا۔ حصولِ برکت کے لئے نکاح نماز عشاء کے فوراً بعد مسجد میں ہونا تھا اور میں نے بطور گواہ بھی شرکت کرنی تھی۔ ایک گھنٹے کی گنجائش رکھ کر میں دفتر سے نکلا ۔فاطمہ جناح روڈ سے جونہی فیروز پور روڈ پر پہنچا تو تاحد نگاہ گاڑیوں کی لمبی قطاریں نظر آئیں۔ گزشتہ تین سال میں کوئی سڑک، انڈر پاس یا اوورہیڈ برج نہ بننے کی وجہ سے ویسے تو ٹریفک جام معمول بن چکا ہے لیکن یہاں تو ٹریفک چل نہیں رہی تھی بلکہ رینگ رہی تھی وہ بھی وقفے وقفے سے۔ کوئی متبادل راستہ بھی نہیں تھا۔ اس لیے ٹریفک میں پھنسے رہنا ہی مقدر ٹھہرا۔ یہ سب پاکستان سپر لیگ (PSL) کے میچز کی وجہ سے تھا۔ میں حالانکہ ایسے وقت میں دفتر سے نکلا تھا جب ٹیمیں قذافی سٹیڈیم پہنچ چکی تھیں اور خیال یہی تھا کہ اب ٹریفک جام کا مسئلہ نہیں ہوگا۔ لیکن شہریوں پر یہ عذاب ٹیموں کے ہوٹل سے اسٹیڈیم اور اسٹیڈیم سے ہوٹل تک پہنچنے کے دوران ہی مسلط نہیں تھا بلکہ میچز کے دوران بھی یہی صورتحال تھی۔ مسلم ٹاؤن موڑ تک پہنچنے سے پہلے نماز عشاء بھی ہو گئی۔ فکر تھی کہ نکاح فارم میں بطور گواہ میرا اندراج ہے۔ بار بار فون آرہے تھے۔ ان کو صورتحال بتائی۔ ایک دو اہم عزیز اور بھی اسی طرح کہیں ٹریفک میں پھنسے ہوئے تھے۔ حد تو یہ تھی کرکٹ ٹیمیں اسٹیڈیم میں میچ کھلنے میں مصروف تھیں لیکن مسلم ٹاؤن کا چوک اور اوور ہیڈ برج تک بند کیے ہوئے تھے۔ کچھ خواتین کو بھاری بیگ اُٹھائے پیدل سڑک پار کرتے دیکھا۔ فیروزپور روڈ سے دائیں طرف نہر کی جانب مڑنے کی اجازت بھی نہیں تھی۔ بائیں طرف جا کر پھر لمبا فاصلہ طے کر کے مڑنا تھا اور وہ بھی شدید ٹریفک میں۔ یہ عذاب جھیلتے دو ڈھائی گھنٹوں کے بعد جوہر ٹاؤن پہنچا اور رات ساڑھے آٹھ نو بجے نکاح میں بطور گواہ شریک ہوا۔ یہ صورتحال صرف میرے ساتھ پیش نہیں آئی ہوگی۔ کتنے لوگ ہوں گے جنہوں نے وقت پر کہیں پہنچنا ہوگا۔ کتنے مسافر ہوں گے جو ایئرپورٹ، ریلوے اسٹیشن یا بس اڈے پر پہنچنا چاہتے ہوں گے، مگر ٹریفک میں پھنسے رہے ہوں گے۔لاہور کے لاکھوں شہریوں پر پی ایس ایل کے موقع پر ہی نہیں جب بھی کوئی غیر ملکی ٹیم یا کھلاڑی پاکستان میں کھیلنے آتے ہیں یہ عذاب مسلط کر دیا جاتا ہے۔ یہ کرکٹ کا کھیل نہیں بلکہ لاہور کے لاکھوں شہریوں کی خودداری، بنیادی حقوق اور آزاد ملک کی شہریت کے ساتھ یہ کھیل کھیلا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس سے پاکستان کا سافٹ امیج دنیا کے سامنے پیش کرنا مقصود ہوتا ہے۔ دنیا کا کون سا ملک ہے جو اپنے شہریوں کی زندگیوں کو سخت تکلیف اور عذاب میں مبتلا کر کے اپنا سافٹ امیج نمایاں کرتا ہے۔ جس ہوٹل میں ان ٹیموں کو ٹھہرایا جاتا ہے وہاں کرفیو کا سا سماں ہوتا ہے۔ وہاں سینکڑوں لوگ ٹھہرے ہوتے ہیں۔ کئی تقریبات ہوتی ہیں جو سب بُری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ اسی پی ایس ایل کے دوران مجھے اس ہوٹل کے قریب کلب روڈ پر ایک ادارے میں ایک ادبی تقریب میں شرکت کرنا تھی جب مال روڈ پر پہنچا تو ٹریفک رُکی ہوئی تھی۔ ہم جیسے لوگ اپنی مصروفیات کے پیشِ نظر ادبی تقریبات کو پورا وقت تو نہیں دے پاتے لیکن کوشش ہوتی ہے کہ اگر دعوت ملی ہے تو کچھ دیر کے لئے حاضری لگوا لی جائے۔ ادبی شخصیات سے ملاقاتیں ہو جاتی ہیں۔ رسالے کے لئے رپورٹ یا ادبی انٹرویو بن جاتا ہے۔ وہاں بھی ٹریفک اتنی دیر روکی رکھی گئی کہ جب میں پروگرام میں پہنچا تو وہ ختم ہو چکا تھا۔سب سے بڑا ظلم قذافی اسٹیڈیم کے گرد مقیم رہائشیوں اور ریستورانوں کے مالکان کے ساتھ ہوتا ہے۔ ایک لائبریری، سرکاری ادبی ادارے اور کئی اہم دفاتر یہاں موجود ہیں لیکن پی ایس ایل یا انٹرنیشنل میچز جتنے دن یہاں ہوتے ہیں سب بند کر دیے جاتے ہیں۔ گویا قذافی اسٹیڈیم کے گرد کرفیو لگا دیا جاتا ہے۔ کوئی ایمرجنسی ہو جائے تو ہمیں پوچھنے والا کوئی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ سب جواری ہیں پوری قوم کو جوے پر لگا دیا ہے۔ یہ میچز صرف جوے کے لئے کروائے جاتے ہیں۔ ہماری زندگیاں اجیرن کر کے کھلاڑی، کرکٹ بورڈ اور بڑے جواری کروڑوں روپے کماتے ہیں۔ یہ تماشہ بند ہونا چاہئے‘‘۔ لاہور کے لاکھوں شہریوں کے ہیں۔ دنیا کے سامنے پاکستان کا سافٹ امیج پیش کرنے کے لئے کرکٹ ہی کیوں؟ یہ سافٹ امیج پاکستان میں دہشت گردی، بم دھماکے، چوریاں، قتل، ڈکیتیاں ختم کر کے بھی پیش کیا جاسکتا ہے۔ حکومت کو کرکٹ میچز کروانے کا اتنا ہی شوق ہے تو شہر سے باہر ایک سٹیڈیم اورکھلاڑیوں کی رہائش کے لئے گیسٹ ہاؤس بنا دیا جائے …!!!!