جذام کا عالمی دن

جاندار اور بیماریوں کا ہمیشہ چولی دامن کا ساتھ رہا ہے اللہ تعالیٰ کا قرآن مجید میں وعدہ ہے کہ ’’میں ہی بیماروں کو شفا دیتا ہوں اور کوئی مرض بغیر علاج کے پیدا نہیں کیا گیا ۔‘‘ دیکھا گیا ہے کہ انسان کے دیگر شعبہ میں ترقی کے ساتھ ساتھ طب کے میدان میں بھی جدید میڈیکل سائنس سے بیماریوں کی تشخیص کے دستیاب ذرائع کے باوجود کئی ایک بیماریوں کا کامل تریاق ابھی تک دریافت نہیں ہو سکا ہے ۔بہت سی نئی بیماریاں بھی جنم  لے رہی ہیںجیسا کہ کرونا،اومی میکرون کا وائرس پھیل رہا ہے ۔جنوری کا آخری ہفتہ عوام الناس میں مائیکو بیکٹریم نامی جرثومے سے پھیلنے والے کوڑھ جیسے مرض کی آگاہی اور تحفظ کے طور پر دنیا بھر میں منایا جاتا ہے ۔ یہ دن منانے کا آغاز1954ء میں شروع ہوا۔ 4000قبل مسیح چین ،مصر اور ہندوستان کی قدیم تہذیبوںمیں اس کے آثار ملنے سے یہ مرض قدیمی متعدی تصور کیا جاتا ہے جس سے مریض کے جسم اور جلد پر سفید اور سرخی مائل دھبے نمودار ہوتے ہیں۔قوتِ احساس میںکمی ،جلد کا موٹا یا جھر جھرا ہونا،انگلیوں پنجوں کا ٹیڑھا ہونا یا گلنا شروع ہو جانا ۔مریض کی آنکھوں،ہڈیوں کے ساتھ ساتھ ہاتھ اور پاؤں زیادہ متاثر ہوتے ہیں ۔ جسم کو بد نما ا شکل سے دوچار کر دینا،  قبل ازیں جذام کے مرض کو ایک لا علاج جان لیوا مرض سجھاجاتا تھا۔ سماج میں اسے چھوت کی  بیماری تصور کرتے ہوئے مریض سے لا تعلقی،ناروا  سلوک اور قریبی تعلقات سے اعراض، غیر انسانی سلوک عام سے بات تھی۔  ہندوستان میں تو اب بھی ایسے مریضوں کیلئے  علیحدہ  جگہیں مختص کی گئی  ہیں اور انہیں کوڑھی کالونیوں(leper colonies)میں رکھا جاتا ہے ۔ لیکن  جدید طب کے مطابق  کوڑھ کے مرض کا شکار مریض قابل علاج و دیگر شہریوں  یا تیمارداروں کو اس بیماری سے بچانے کیلئے ان سے علیٰحدہ یا دور بھاگنے جیسے  رویے روا  کی ضرورت نہیں ہے ۔ البتہ مرض کا وقت پر مناسب علاج نہ کروانے سے مرض بگڑ کر موت یا معذوری ہو سکتی ہے ۔
ماہرین کے نزدیک پاکستان میں جذام کے مریضوں کی سالانہ تعداد تین سے چار سو کے قریب رجسٹرڈ ہوتی ہے ۔ایک اندازے کے مطابق قیام پاکستان سے لیکر اب تک تقریباً 58 ہزار شہری اس بیماری کا شکار ہوئے ۔  پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس بیماری کی وجہ بننے والے جرثومے کو تباہ کرنے اور تحفظ کیلئے جدید مڈیکل سائنس کو اپناتے ہوئے جذام ملٹی ڈریگ تھراپی، ہوی اینٹی بائیوٹکس سمیت تدارک اور علاج کیا جا رہا ہے ۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ذریعے مفت علاج معالجہ کی  سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں ۔وطنِ عزیز میں اگر چہ جذام کے مریضوںکی تعداد میں بدستور کمی دیکھنے میں آ رہی ہے لیکن اس مرض سے لاعلمی،لا شعوری میں اسے چھپانا ،ظاہر نہ کرنا اور اس مرض کے علاج کیلئے اتائیوں اور عاملوں کارخ کرنے سے یہ بیماری کنٹرول کرنے میں مسائل کا سامنا ہے ۔جذام کے مرض کی روک تھام شہریوں کو اس کے خوف سے نکالنے پر کام کرنے والے ادارے ’’ماری ایڈ لیڈ لیپروسی سنٹر‘‘ عوام کو اس مرض کی علامات ،آگہی بارے سیمینار کا انعقاد اور اقدامات ریگولر اور ترجیحی بنیادوں پر کریں ۔ 

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...