تجزیہ: محمد اکرم چودھری
پاکستان تحریکِ انصاف کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اپنے سیاسی مستقبل کی وجہ سے پریشان ہیں اور اس پریشانی میں وہ لوگ جہانگیر خان ترین کے پاس جاتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت سے ناراض ارکان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور پارٹی پالیسیوں سے اختلاف رکھنے والے لوگ اکٹھے ہو رہے ہیں۔ گوکہ سیاسی حلقوں میں جہانگیر ترین کو ایک دھڑے کے سربراہ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جہانگیر خان ترین نے کوئی سیاسی دھڑا نہیں بنایا نہ ہی انہوں نے تنگ کیے جانے کے باوجود آج تک سخت ردعمل دیا ہے۔ اپنی ہی جماعت کی حکومت ہونے اور مختلف کارروائیوں کا سامنا کرنے کے باوجود انہوں نے صبر اور ضبط کا مظاہرہ کیا ہے۔ جہانگیر خان ترین کے پاس جانے والوں میں اکثریت جنوبی پنجاب کے ان لوگوں کی ہے جو وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سے ناراض ہیں اور اس کی وجہ یہی ہے کہ حلقے کے لوگوں کے کام رکے ہوئے ہیں۔ جہانگیر ترین کے پاس جانے والے تمام ارکان قومی و صوبائی اسمبلی پاکستان تحریک انصاف کے خلاف ووٹ نہیں کریں گے نہ ہی یہ کوئی الگ دھڑا ہے نہ جہانگیر ترین اس کی قیادت کر رہے ہیں۔ یہ سیاسی لوگوں کا اجتماع ہوتا ہے اور یہ لوگ آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے اپنے اپنے سیاسی مستقبل کے لیے ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں۔ چونکہ اپنی جماعت سے ناراض ہیں اور جہانگیر ترین ان ناراض لوگوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہیں۔ یہ بھی بہت بڑا سوال ہے کہ جہانگیر ترین کیسے ملکی سیاست میں فعال کردار ادا کر سکتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے ان ناراض ارکان اسمبلی کا اپنی جماعت پر عدم اعتماد کی وجہ منتخب نمائندوں کو اہمیت نہ دینا اور کام کرنے والوں کو دیوار سے لگانا ہے، یہ ایسی بدقسمت جماعت ہے کہ اپنے دور میں اپنے لوگوں کو بھی ناراض کیا ہے۔