قصہ ویسٹ ورجینیا( امریکہ) کی سپریم کورٹ کے مواخذہ کا …!

 ہمارے نظام کی سب سے بڑی خرابی  مواخذے کا نہ ہونا ہے۔  تو سرکاری طور پر ہمارے ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے لیکن عملاََ  نہ  تو یہ  جمہوری ہے نہ ہی اسلامی !  جب یہاں  وزیرِ اعظم بھی یہ کہتے ہیں کہ  قانون کا نفاذ محض کمزور اور غریب پر ہے طاقتور اس سے بالا ہے تو جمہوریت پر تو فاتحہ پڑھ لینی چاہیے !  جمہوریت اور دینِ اسلام دونوں میں بڑے سے بڑے  سرکاری  عہدے دار کو مواخذے سے کا اثتثناء حاصل نہیں ہوتا۔ گیت نگار مرحوم مسرورؔ انور  سے میں نے کچھ چیزیں سیکھیں جو آج  کام آتی ہیں۔ان میں ایک باقاعدگی سے ڈائری لکھنا بھی ہے۔2018 کی ڈائری  کی ورق گردانی کرتے ہوئے ایک چونکا دینے والی خبر نکلی جو آج  لکھنے کا سبب بنی۔ کبھی آپ نے سُنا کہ کسی ریاست کی پوری کی پوری سپریم کورٹ مواخذے کے لئے پیش ہو گئی۔یہ واقعہ  ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ریاست ویسٹ ورجینیامیں پیش آیا۔یہاں ہائوس جیوڈیشری کمیٹی نے ریاست کی سپریم کورٹ کے مواخذے کا فیصلہ کر لیا۔ان میں چیف جسٹس مارگریٹ ورک مین،  جسٹس رابن ڈیوِس،  جسٹس بیتھ واکر  اور جسٹس ایلن لَوری شامل ہیں۔ پانچویں جسٹس مینیس کیچم  تفتیش شروع ہونے سے پہلے ہی مستعفی ہو گئے۔ان جسٹس خواتین و حضرات پر بد انتظامی،  بد عنوانی، اپنا کام صحیح نہ کرنا اور کچھ بڑے جرائم کے الزامات لگائے گئے۔مذکورہ جیوڈیشری کمیٹی نے بتلایا کہ 04 ملین ڈالر جسٹس خواتین و حضرات نے اپنے دفاتر کی  ’’  غیر ضروری شاہانہ  ‘‘  سجاوٹ،  گاڑیوں اور کریڈٹ کارڈوں پر خرچ کیے۔ اس سے پہلے کہ بات کو آگے بڑھائوں یہ بتانا ضروری ہے کہ پاکستان کی طرح ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ایک ہی سپریم کورٹ نہیں ہے بلکہ ہر ایک ریاست کی اپنی الگ الگ سپریم کورٹ ہوتی ہے۔میں نے ریاست ویسٹ ورجینیا میں ایک لمبا عرصہ گزارا ہے۔ وہاں کے قانون سے بھی واسطہ رہا۔خاکسار اپنے کالموں میں کئی مرتبہ لکھ چکا ہے کہ  ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں قانون کا  ’’  نفاذ  ‘‘  نظر آتا ہے۔ خاص و عا م کے لئے قانون یکساں ہیں۔خواہ کوئی کتنا بڑا سراکاری عہدہ دار کیوں نہ ہو کسی کو  استثناء  حاصل ہے نہ کوئی قانون سے برتر۔وہاں کے اعلی حکام اکثر شاپنگ سینٹروں ،  میلوں ٹھیلوں اور عوامی جگہوں پر نظر آتے ہیں۔یہ شاپنگ کرنے نہیں بلکہ عوام کا حال معلوم کرنے آتے ہیں۔خود  میری ریاست کے گورنر سے عوامی جگہوں پر  دو  مرتبہ ملاقات ہوئی تھی۔ کل میں آن لائن خبریں دیکھ رہا تھا جب ویسٹ ورجینیا سے متعلق یہ خبر نظر سے گزری۔ میری دلچسپی پیدا ہونا قدرتی بات تھی۔ پوری کی پوری سپریم کورٹ  کے مواخذے کی کہانی کا آغاز  نومبر  2017  میںمقامی ٹیلی وژن کی اُس خبر سے ہوا جس میں بتلایا گیا تھا کہ عوام کے پیسوں سے جسٹس ایلن لَوری نے اپنے ذاتی چیمبر میں 32,000ڈالر کا صوفہ سیٹ اور اس کے لئے 1,700 ڈالر کے عالی شان کشن خریدے ۔ اس پر ضابطے کی کاروائی شروع ہوئی اور فروری  2018  میںجسٹس لَوری کو مواخذے کا سامنا کر نا پڑا ۔ انہیں  22  ا لزامات کے تحت  8 جون کو بغیر تنخواہ کے معطل کر دیا گیا۔  گورنر کے کہنے پر بھی یہ مستعفی نہیں ہوئے۔ ان پر  16 فراڈ کے الزامات،  2  دھوکہ دہی کے الزام، 0 گواہیوں کی چھیڑ چھاڑ اور وفاقی تفتیشی اداروں سے جھوٹ بولنے کے الزام شامل ہیں ۔ ایف بی آئی نے انہیں 20 جون کو گرفتار بھی کیا تھا لیکن بعد میں ضمانت پر چھوڑ دیا۔ان پر یہ الزام یہ بھی لگے کہ سرکاری گاڑی ذاتی استعمال میں لائے اور اس کا  پٹرول بھی کلیم کیا۔پھر کورٹ ہائوس سے فرنیچر بھی اپنے گھر لے جا کر استعمال کیا۔ جسٹس لوَری کے مقدمہ کی تاریخ  2 0  اکتوبر مقرر ہوئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ موصوف جسٹس بننے سے پہلے  ویسٹ ورجینیا کی سیاسی کرپشن کے بارے میں ایک کتاب کے مصنف رہ چکے ہیں۔ میں جب بھی کبھی ایسی خبر پڑھتا ہوں  تو بے اختیار میرے ذہن میں اپنے ملکی حالات کا نقشہ گھوم جاتا ہے۔ہمارے طریقہ ء  سیاست و  طرزِ حکومت پر کئی محاورے چسپاں ہوتے ہیں۔مثلاََ آدھا تیتر آدھا بٹیر  یا  کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی بھی بھول گیا  یا  دوسروں کو نصیحت اور خود ملا فضیحت اور سب سے بڑا محاورہ جو ہمارے حکمرانوں پر صادر آتا ہے وہ ہے  ’’  بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی  ‘‘۔ کچھ بھی چھپا نہیں۔ ہمارے عوام سب جانتے ہیں !!  اپنے انتخابات کی اشتہاری مہم پر سیاستدان جو رقم خرچ کرتے ہیں … کامیاب ہونے کے بعد کیا وہ اسے بھول جائیں گے  ؟ جی نہیں !  اسی لئے تو  ’’  سرمایہ  ‘‘  لگایا تھا تا کہ مع منافع اصل رقم وصول کر سکیں۔کہاں سے؟  جی ہاں !  عوام کے پیسوں سے جو وہ ٹیکس کی صورت میں ادا کرتے ہیں۔ یہ  روپیہ مختلف حیلے بہانوں سے سیاستدانوں کی ذاتی جیب میں آ جاتا ہے۔ نہ صرف وہ خود بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہیں بلکہ ساتھ ساتھ اپنے پیاروں کو بھی نوازتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟  اس کی صرف ایک  وجہ ہے کہ ان کے سر پر کسی مواخذے کی تلوار نہیں لٹکتی ۔اس لئے کہ انہیں معلوم ہے کہ  ان کے  ’’  عہدوں  ‘‘ کو قانون کچھ نہیں کہے گا۔کہیں کوئی استثناء کام آ جاتا ہے  تو کہیں یہ کسی قانونی سقم سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔وہ ممالک جہاں جمہوریت رائج ہے وہاں مکمل قانون کا نفاذ ہے جس سے کسی گورنر،  صدر  یا چیف جسٹس کو کوئی استثناء حاصل نہیں۔ اسی قانون کی تلوار کا خوف انہیں چھوٹی موٹی کوتاہیوں سے آگے بڑھنے نہیں دیتا اور اگر یہ چھوٹی موٹی کوتاہیاں کبھی بے نقاب ہو جائیں  تو انہیں معطل کرنے  اور مواخذہ کرنے کے لئے کافی ہو جاتی ہیں۔ ایسے میں بے اختیار میرے دل سے دعا نکلتی ہے کہ کاش ہمارے ملک پاکستان میں بھی اسی طرح قانون کا راج ہو جہاں بڑے بڑے عہدیدار چھوٹے چھوٹے ہاتھ مارتے ہوئے بھی ڈریں کجا  یہ کہ ہمارے چھوٹے چھوٹے عہدیدار بڑے بڑے ہاتھ مارتے ہوئے بھی نہیں ڈرتے۔

ہم ہر آنے والی حکومت کی طرح  موجودہ حکومت سے بھی یہی امید رکھتے ہیں کہ وہ قانون  کا  ’’  نفاذ  ‘‘ کرے گی  مکمل قانون کا نفاذ !

ای پیپر دی نیشن