کرناٹک کی باحجاب مسکان

Feb 17, 2022

بھارتی ریاست کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں  مسلم طالبات کے حجاب پہنے پر پابندی کا معاملہ  نئی دہلی  سرکار کے لیے  عالمی سطح پر تنقید کا باعث بن رہا ہے ،  مثلا  اسلامی تعاون تنظیم کی جانب سے مودی سرکار کے دور میں مسلمان طالبات کو حجاب پہنے سے روکنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اقوام متحدہ سے اقدامت اٹھانے کی اپیل کی ہے ، اس سے پہلے امریکی سفیر برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی رشد حسین نے سماجی ویب سائٹ پر کہا تھا کہ مذہبی آزادی میں اپنی مرضی کا لباس پہنا بھی شامل ہے، رشد حسین کے بعقول بھارتی ریاست کرناٹک کو یہ کوشش نہیں  کرنی چاہے کہ وہ کسی کے مذہبی لباس کا فیصلہ کرے ، ان کے بعقول سکول میںحجاب پر پابندی نہ صرف مذہبی آزادی کی خلاف ورزی  ہے بلکہ یہ لڑکیوں اور خواتین کے خلاف بھی اقدام ہے  ـ‘‘  ادھر  توقعات کے عین مطابق بھارتی وزارت خارجہ نے اپنے ہاں رائج جمہوریت کی دہائی دیتے ہوئے’’ مسئلہ ‘‘حل کرنے کی یقین دہانی بھی کروا ڈالی ، دوسری جانب بھارت کے سابق سفارتکار نے مسلمان طالبات کے حجاب کے معاملہ پر او آئی سی کو غیر متعلقہ ادارہ قرار دے ڈالا‘‘ بلاشبہ بھارت میںمسلمانوںکی حالت زار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں،  سوال یہ ہے کہ جب گجرات میںمسلمانوں کے قتل عام میں ملوث ہوکر قصائی کہلانے والا وزیر اعظم بن جائے تو پھر خیر کی توقع کیونکر رکھی جائے گی ، بھارت میں  اکھنڈ بھارت کے فلسفے کے تحت ایک خدا، ایک رسول ؐ اور ایک قرآن کو ماننے والوں کو  محکوم بنانا حیران کن نہیںرہا، سوشل میڈیا پر آئے روز ایسے واقعات کے کلپ وائرل ہوتے ہیں جس میں بھارتی مسلمانوں کے ساتھ توھین آمیز سلوک کیا جاتا ہے ، دراصل پڑوسی ملک میںصورت حال کچھ یوں ہوچکی کہ سیاست میں مذہبی انتہاپسندی کی آمیزش ہوچکی   چنانچہ اب  بی جے پی کو حصول اقتدار کے لیے ہر حال میں ہندو انتہاپسندی کو فروغ دینا ہے ۔   تشویش کا معاملہ یہ ہے کہ کراہ ارض پر واقعہ  پچاس  سے زائد مسلمان ملک اپنی زمہ داریاں ادا کرنے کو تیار نہیں،  نسل درنسل چلے آنے والے مسلم حکمرانوں کی ترجیح اول صرف اور صرف اقتدارہے چنانچہ وہ مذہبی حمیت کا  مظاہرہ کرنے میںبدستور ناکام ہییں چنانچہ ں سمجھ لینا چاہے کہ جب تک مسلم ریاستوں میں حکمران اور عوام میںفاصلے برقرار رہیں گے ، مسلمانوں پر ظلم ستم کا سلسہ ختم نہیںہونے والا۔ مثلا مسلہ کشمیر ہو یا تنازعہ فلسطین دونوں  کئی دہائیوں سے  حل طلب ہیں ،  یقینا عام مسلمانوں کی اکثریت یہ خواہش رکھتی ہے کہ وہ آگے بڑھ کر اپنے مظلوم بھائیوں کی داد رسی کرے مگر وہ  باجوہ ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہوپارہی ، عالمی سیاست میں اب تک مسلم ریاستوں کا کردار  ہمیں چیخ چیخ کربتا رہا کہ مسلمان  حکمران اپنی ناک سے آگے دیکھنے پر آمادہ نہیں ، ابھرتی ہوئی بھارتی معیشت کے تناظر میں یہ زمینی حقائق کے عین مطابق ہے کہ مسلم اشرافیہ پورے قد کساتھ  مودی سرکار کے ساتھ کھڑی ہے ، مخصوص حوالوں سے یہ کہنا کسی طور پر غلط نہ ہوگا کہ مسلمان معاشروں میںمذہبی انتہاپسندی کی ایک وجہ جمہوریت کا نہ ہونا ہے ، چنانچہ روس کی افغانستان  میںآمد کو لے کر’’ جہاد‘‘  کا علم  تو امریکہ  نے بلند کیا اور سویت یونین کے ٹکڑے ٹکڑے کردئیے مگر قیمت لاکھوں نہیںکروڈوں مسلمانوں کو مذہبی انتہاپسندی کی شکل میں دینی پڑی ۔ یاد رکھنا چاہے کہ مسلمان اشرافیہ کی خود غرضی کے باعث  ایک خدا کو ماننے والے   محکوم اور مجبور ہوچکے ، مسلمان حکمرانوں نے اپنے عوام کی اکثریت کو  جدید علوم وفنو ن سے دور کررکھا ہے جس کے بارے حکم ہے کہ اس کا حصول ہر مرد وعورت پر فرض ہے ، یہ بات سمجھ لینی ہوگی کہ مسلم دنیا کے خلاف یہود وہنود    کی سازش بعد کی بات ہے مگر  اہل اقتدار کی شکل  میں جو ٹولہ ہمارے سروں پر مسلط ہے  اس کے ہوتے ہوئے کسی دشمن کی ضرورت نہیں، مودی سرکار آج بھارتی مسلمانوں ہی  کشمیریوں پر بھی ظلم وستم بند کرسکتا ہے اگر مصلحت کو بالائے طاق رکھ کر بھارت سے دو ٹوک انداز میں بات کی جائے ۔ وقت آگیا ہے کہ پیارے رسول ؐکو خدا کا آخری پیغبیر ماننے والے اپنے حکمران طبقہ کی طرف دیکھنا بند کردیں ، لہذا مسلمانوں کے خلاف جاری مظالم پر پرامن احتجاج کا سلسلہ جاری رکھنا چاہے 
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے 
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر   
 مسلمان اہل فکر ونظر کو جان لیں  کہ مسلم معاشروں میں بہتری کے لیے غیروں کی جانب دیکھنے کی بجائے  اپنے زور بازو پر یقین رکھنا ہوگا،طاقتور اشرفیہ نہ پہلے مسلمانوں کے درد میں مبتلا تھی نہ ہی مسقبل میں اس کی امید کی جاسکتیا ہے ، جس چیز کی ضرورت وہ یہ ہے کہ ہمارا  دانشور طبقہ تما م مصلحتوں کو بالائے طاق  رکھتے ہوئے اصلا ح معاشرہ کا جھنڈ بلند کرے، سماج میں جوں جوں بہتری آئے گی پرامن انتقال اقتدار کا معاملہ گھمبیر نہیںرہے گ ،اس حقیقت سے بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ عوام مں علم وشعور کا فروغ دراصل بااثر طبقہ  ہی کے مرہون منت ہوا کرتا ہے  ، اگر معاشرے کی ایلیٹ کلاس کو  کسی خاص رواج  میں انفرادیت کا  برقرار  رکھنا   ہے تو  اسے اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا، 

حقیقت یہ ہے کہ علم اوصرف علم ہی سے  مسلمانوں کے انفرادی ہی نہیںاجتماعی معاملات بھی درست ہوسکتے ہیں، 

مزیدخبریں