عمران کی عبوری ضمانت کیلئے درخواست خارج


لاہور (سپیشل رپورٹر+ نوائے وقت رپورٹ) لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے الیکشن کمشن کے فیصلے کیخلاف پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج اور کار سرکار میں مداخلت کیس میں بار بار مہلت کے باوجود عدم پیشی پر عمران خان کی حفاظتی ضمانت کی درخواست خارج کردی۔ عدالت نے قرار دیا کہ ہمارے پاس درخواست ضمانت خارج کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ فیصلہ لکھوانے کے دوران وکلاء نے عدالت سے دوبارہ کچھ دیر انتظار کی استدعا کی۔ وکلا کے خاموش ہوتے ہی بینچ نے درخواست خارج کرنے کا فیصلہ سنا دیا۔ جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس دیئے کہ بغیر پیشی کے ضمانت کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے، عمران خان وہیل چیئر پر آجائیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے وکیل نے عدالت کے روبرو باربار پیشی کے بغیر عمران خان کو ضمانت دینے پر اصرار کیا۔ عدالت نے کہا کہ کب تک عدالتوں کو دیر تک بٹھائے رکھیں گے، آپ کو عمران خان کو لے کر آنا چاہیے تھا۔ وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ بغیر پیشی ضمانت کی مثالیں موجود ہیں۔ عدالت نے جواب دیا کہ ہمیں تو ضمانت قبل از گرفتاری کیلئے لازمی پیشی کا اصول معلوم ہے۔ اظہر صدیق نے کہا کہ عمران خان نارمل آدمی نہیں، مقبول سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں، ڈاکٹر نے عمران خان کو مکمل آرام کا کہا ہے، عمران خان کے زخم ابھی نہیں بھرے ہیں، پارٹی بھی تیار نہیں کہ عمران خان کو عدالت لایا جائے۔ جسٹس علی باقر نجفی نے کہا قانون کہتا ہے کہ حفاظتی ضمانت کیلئے ملزم کی پیشی ضروری ہے، پھر میڈیکل رپورٹ میں کہیں نہیں لکھا کہ عمران خان وہیل چئیر پر نہیں آسکتے، اب یہ راستہ ہے کہ یا تو آپ درخواست واپس لیں یا ہم فیصلہ کر دیں۔ عدالت نے عمران خان کو پیش ہونے کیلئے شام ساڑھے چھ بجے تک کا وقت دیتے ہوئے کہا تھا کہ ساڑھے 6 بجے تک عمران خان نہیں آئے تو درخواست خارج کر دیں گے۔ وکیل اظہر صدیق نے وکالت نامہ جمع کراتے ہوئے کہا کہ ابھی دو مختلف پہلوﺅں پر غور ہو رہا ہے۔ جسٹس طارق سلیم شیخ نے استفسار کیا کہ کیا آپ وقت چاہ رہے ہیں؟۔ جس پر اظہر صدیق نے جواب دیا کہ جی، کچھ وقت دے دیں، ڈاکٹروں سے مشاورت چل رہی ہے، پارٹی کو سکیورٹی خدشات ہیں۔ جس پر عدالت نے سماعت ساڑھے 12 بجے تک ملتوی کردی۔ اظہر صدیق نے عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ پوری کوشش ہے کہ 2 گھنٹے میں عمران خان کسی طرح پہنچ سکیں، ساڑھے 12 بجے سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو عمران خان کے وکیل غلام عباس نسوانہ نے کہا کہ ابھی مشاورت جاری ہے، ہمیں ایک گھنٹہ مزید چاہیے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا اب عمران خان پیش ہوں گے؟۔ جواب میں عمران خان کے وکیل نے کہا کہ یہی مشاورت جاری ہے، جس پر عدالت نے کارروائی 2 بجے تک ملتوی کردی۔ 2 بجے سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو عمران خان عدالت میں پیش نہیں ہوئے تاہم ان کے معالج ڈاکٹر فیصل سلطان کمرہ عدالت میں پہنچ گئے۔ عمران خان کے وکیل اظہر صدیق نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں ہمیں اسلام آباد ہائی کورٹ سے ریلیف مل چکا ہے، عمران خان کی حفاظتی ضمانت کی درخواست واپس لینا چاہتا ہوں۔ جسٹس طارق سلیم شیخ نے استفسار کیا کہ عمران خان کے وکالت نامے اور حلف نامے پر دستخط میں فرق کیوں ہے، یہ بہت اہم معاملہ ہے، میں آپ کو یا آپ کے موکل کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کروں گا۔ اظہر صدیق نے کہا کہ میں اس بارے میں عدالت کی معاونت کر دیتا ہوں، عدالت مہلت دے دے۔ اس پر جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ میں درخواست واپس نہیں کر رہا، اس درخواست کو زیرالتوا رکھ رہا ہوں، آپ دستخط کے معاملے پر وضاحت دیں۔ بعدازاں لاہور ہائی کورٹ نے کیس کی مزید کارروائی شام 4 بجے تک ملتوی کر دی۔ دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو وکیل غلام نسوانہ نے کہا کہ عمران خان اپنے دستخطوں کو مانتے ہیں اور اس کی ذمہ داری لے رہے ہیں۔ جس پر جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ وہ میرے سامنے اون کریں، ورنہ میں وکیل اور درخواست گزار کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کروں گا۔ وکیل نے کہا کہ اگر عدالت مناسب سمجھے تو دستخط کے بارے میں ویڈیو لنک پر پوچھا جا سکتا ہے، عمران خان کو ڈاکٹروں نے چلنے سے منع کیا، عدالت بیلف مقرر کردے تاکہ دستخط کی حد تک بات واضح ہو جائے۔ جس پر جسٹس طارق سلیم شیخ کا کہنا تھا کہ ہم نے قانون کے مطابق چلنا ہے، حلف کے بعد دستخط سے متعلق بیان عمران خان دیں گے۔ سماعت کے دوران لاہور ہائی کورٹ نے عمران خان کے وکیل کی وضاحت مسترد کر دی۔ جس پر انہوں نے عدالت سے کہا کہ مشاورت کے لیے مزید وقت دیں۔ عدالت نے عمران خان کے وکیل اظہر صدیق کی استدعا پر سماعت ساڑھے 6 بجے تک ملتوی کردی اور کہا کہ ساڑھے 6 بجے دوبارہ سماعت کریں گے۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق لاہور ہائیکورٹ نے عمران خان کو 20 فروری کو دن 2 بجے تک پیش ہونے کی مہلت دیدی۔ عمران خان کی حفاظتی ضمانت کی درخواست پر دوبارہ سماعت ہوئی۔ عمران خان جسٹس طارق سلیم شیخ کی عدالت میں بھی نہ پہنچ سکے۔ عدالت نے پٹیشن اور بیان حلفی پر عمران خان کے دستخط مختلف ہونے پر نوٹس لیا تھا۔ عدالت نے عمران خان کو 20 فروری کو پیش ہونے کا حکم دیا۔ عمران خان کے وکیل نے عدالت میں کہا کہ عمران خان عدالتوں کی عزت کرتے ہیں، عدالت عمران خان کی سکیورٹی کا بندوبست کرے، آج پیش ہو جائیں گے۔ دستخط کے معاملے پر جو قصور وار ہوا عدالت اس کو سزا دے سکتی ہے۔ جسٹس طارق سلیم شیخ نے استفسار کیا کہ آپ کب عمران کو پیش کر سکتے ہیں؟۔ آپ کی آئی جی سے ملاقات کرا دیتے ہیں۔ کیس پیر کو رکھ لیتے ہیں۔ عدالت نے آئی جی کو عمران خان کی لیگل ٹیم کے ساتھ سکیورٹی معاملات فائنل کرنے کا حکم دیا۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب عمران خان کی سکیورٹی سے متعلق حکم پر عمل یقینی بنائیں۔
عمران درخواست خارج 

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...