ایک طرف کمر توڑ مہنگائی ہے جس نے پاکستان کی 95فیصد عوام کا جینا دو بھر کررکھا ہے تو دوسری طرف ملک میں ختم نہ ہونے والا سیاسی عدم استحکام ہے جس نے عوام کے اوسان خطا کررکھے ہیں۔ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں آئے روز ہونے والا اضافہ کیا کم تھا کہ اب گیس و بجلی کی قیمتوں میں اضافے نے لوگوں کے ہوش و حواس گم کردیئے ہیں ۔ ہر کوئی پریشان ہے کہ ابھی مزید قیامت ڈھائی جانے والی ہے۔ عوام یہ صدمہ بھی برداشت کرلیتے اگر ملک کی اشرافیہ کے کروفر میں کمی نظر آتی یا پھر ملک میں سیاسی استحکام ہوتا اور تمام سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر معاشی بدحالی کا حل تلاش کرتے دکھائی دیتیں۔ اس پوری صورت حال نے پاکستان کے عوام کو عجیب سی بے یقینی اورہیجانی کیفیت میںمبتلا کر رکھا ہے۔ بدقسمتی سے انہیں بہتری کی امید دلانے والے سیاستدان اور ان کی قیادتیں باہم دست و گربیان ہےں۔ جسے دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ ملک میں سیاست نہیں قبائلی دشمنوں کی باہمی جنگ برپا ہے۔ حریف سیاستدان ہوں یا سیاسی جماعتیں ۔ آپس میں نظریاتی یا بیانیے کے ٹکراﺅ کو اختلاف رائے تک محدود رکھتے ہیں۔ اسے ذاتی دشمنی میں بدل کر اپنی نفرتیں عوام کو منتقل نہیں کرتے۔ اپنے اختلافات کو بات چیت کے ذریعے بتدریج کم کرتے ہوئے کسی ایک نقطے پر متفق ہونا ہی جمہوریت اور سیاست کا حقیقی حسن ہے لیکن افسوس ہمارے ملک میں رائج سیاست اس طرح کے اصولوں سے ماورا رہی ہے ۔ سیاسی رہنماﺅں کی اس تنگ نظری اور ”میں نہ مانوں “جیسی ہٹ دھرمی نے پاک سرزمین میں پوری قوم کو عدم برداشت میں مبتلا کرکے سیاسی منافرت کی ایسی دلدل میں دھکیل دیا ہے‘جس میں مزید اضافہ ملک کی سلامتی کو داﺅ پر لگا سکتا ہے ۔ اور اب صاف دکھائی دے رہا ہے کہ منفی سیاست کے ملک پر پڑنے والے اثرات کا ازالہ جلد نہ ہوا توحالات کوئی بھی رخ کرسکتے ہیں۔ ان حالات میں جمہوریت کے تسلسل کو جاری رکھنے کے لیے پہلی ذمہ داری قومی سطح کی بڑی سیاسی جماعتوں کے لیڈران پر عائد ہوتی ہے کہ وہ تمام قومی مسائل جس میں معاشی بے یقینی کا حل موجود ہو ان کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ علاوہ ازیں دیگر اختلافات پر بیان بازی کی بجائے سب سے پہلے تو سیاسی درجہ حرارت میں کمی لانے کی ضرورت ہے۔
اس کے لیے ضروری ہے بڑے لیڈران اپنے ساتھیوں کو ہدایت جاری کریں کہ وہ اپنی شعلہ بیانی پر قابو پائیں۔ یہ کام تینوں بڑی قومی جماعتوں کے سربراہان شہباز شریف ، آصف علی زرداری اور عمران خان بہترطور پر کرسکتے ہیں لیکن اس کے لئے ضد کے خول سے باہر نکل کر پاکستان اور پاکستانی عوام کے مفاد کو اولیت دینا ہوگی ۔ ان میں سے کوئی ایک لیڈر بھی ایسا نہیں جس کے لیے پاکستان اور پاکستان کے عوام مقدم اور اہمیت کے حامل نہ ہوں۔ جب ان کی سیاست کا مقصد ہی ملک کی سلامتی اور عوام کی فلاح ہے تو پھر ان کے باہمی اختلافات کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے۔ اس وقت ملک میں انتخابات کا انعقاد حکومت اور اپوزیشن میں وجہ تنازعہ بنا ہوا ہے تو یہ مسئلہ بھی مل بیٹھ کر حل کیا جاسکتا ہے۔ عوام جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں انتخابی نتائج کو تسلیم کرنا ہمیشہ سے انتخابی عمل سے کہیں زیادہ مشکل مرحلہ رہا ہے۔ ہارنے والی جماعت اگر اپنی شکست کو تسلیم ہی نہ کرے اور دھاندلی کا شور مچا کر سڑکوں پر نکل آئے تو پورا انتخابی عمل ملک میں سیاسی انتشار کی بنیاد بن جاتا ہے۔جیت کر حکومت بنانے والی جماعت کے لیے اپنی مدت پوری کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ان حالات میں اقتدار بچانے کے لئے حکومتیں غیر پیداواری منصوبوں کی طرف راغب ہوتی ہیں جو فوری طور عوام الناس کے لئے ضرور پرکشش ہوسکتی ہیں لیکن ان منصوبوں کے لئے عالمی مالیاتی اداروں سے لیا گیاقرض مستقبل میں پوری قوم کے پیروں کی زنجیر بن جاتا ہے۔
آج اگر پاکستان عالمی مالیاتی اداروں سے گڑ گڑا کر مزید قرض کا طلب گار ہے‘ ملک پر بیرونی قرض 100 ارب ڈالر سے بڑھ چکا ہے اور روپیہ ڈالر کے سامنے سجدہ ریز ہے تو اس کی بنیادی وجہ ملک میں جمہوریت کو آمریت کی طرز پر چلانے، دوسرے کے حق حکمرانی کو تسلیم نہ کرنے ‘ حریف کی فتح کو فراڈ قرار دے کر اورسیاست کو ذاتی دشمنی میں بدل کر انتقام ‘ الزامات اور مقدمات کے ذریعے مخالفوں کو نیچا دکھانے کا وہ طریقہ کار ہے جس نے آج ہمیں اس مقام پر پہنچا دیا ہے۔ حالت یہ ہوچکی ہے کہ زرعی ملک میں عوام 10 کلو آٹے کا تھیلا لینے کے لیے گھنٹوں قطار میں لگ کر دھکے کھانے پر مجبور ہیں ‘ملک پر دیوالیہ ہونے کی تلوار الگ لٹک رہی ہے‘ صنعتی پیداوار نہ ہونے کے برابر ہے اور ادویات ناپید ہونے کو ہیں۔
بہرحال ہمارے ملک کودرپیش تاریخی بدحالی میں تاجر طبقہ کے لیے بھی بڑا سبق ہے کہ اگر وہ اپنی آمدن پر قانون کے مطابق ٹیکس ادائیگی کی ریت ڈالتے اور ٹیکس کی ادائیگی کو اپنی توہین قرار دے کر اس کی چوری سے ہونے والی آمدن کو منافع سمجھنے کی غلطی نہ کرتے تو یقین جانیے ان کی دولت اور آمدن میں کمی نہیں آنی تھی اور نہ ہی وطن عزیز آج اس گھمبیر صورتحال سے دوچار ہوتا جس نے پوری قوم کو بیرونی مالیاتی اداروں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اب بھی وقت ہے ہمارے ملک کی سیاسی قیادت پاکستان کو مکمل معاشی تباہی سے بچا سکتی ہے لیکن اس کیلئے ضروری ہے عمران خان اپنے بیانیے کی ضد سے دو قدم پیچھے ہٹ کر حکومتی اتحاد کے ساتھ مل بیٹھ کر ملک و عوام کے مفاد کی کوئی نئی راہ نکالنے کی سبیل کرےںجو پاکستان کو معاشی طور پر بحالی کی طرف لاسکے۔ عمران خان کے اس اقدام کو یقینی طو رپر عمران خان کے مخالفین اس کی شکست قرار دے کر سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی کوشش کریں گے‘ ممکن ہے اس طرح کے اقدام سے عمران خان کے چاہنے والوں کو بھی دکھ پہنچے جو ”مارو یا مرجاﺅ“ کی کیفیت سے دوچار ہیں لیکن اس طرح مایوسی‘ ہیجان اور بے یقینی کے گرداب میں پھنسے عوام کی ڈھارس ضرور بندھے گی کہ ہمارے سیاستدان اپنے اختلافات پس پشت ڈال کر ان کے مسائل کا حل تلاش کرنے میں سنجیدہ ہیں‘ ورنہ یہ بات ہمیشہ عمران خان کا پیچھا کرتی رہے گی کہ وہ اپنے سیاسی حریفوں کو برداشت نہیں کرتے خود کو عقل کل سمجھتے ہیں‘ اپنی مرضی کا آرمی چیف‘ الیکشن کمشنر اور مرضی کا نگران سیٹ اپ چاہتے ہیں۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ اب پاکستان مزیدسیاسی انتشار کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ نہ ہی پاک فوج کے خلاف تسلسل سے جاری پروپیگنڈہ پاکستان کے مفاد میں ہے۔ اس وقت عمران خان سمیت تمام سیاسی لیڈران کی سیاسی بصیرت کا امتحان ہے کہ وہ کس طرح ملک کو حالیہ بحران سے باہر نکالتے ہیں اور اپنی انا کی قربانی دے کر وطن اور عوامی مفاد کو فوقیت دیتے ہیں۔