عوامی، ملکی مسائل کا ازالہ کیسے ممکن ہو؟ 


پروفیسر محمد مظہر عالم 
وطنِ پاک موجودہ معاشی، سیاسی، آئینی اور اخلاقی انحطاط کا شکار ہے اور جس کی بدولت عوام معاشی بدحالی میں اس قدر گھر گئے ہیں جس کا ظاہری طور پر ازالہ ناممکن نظر آتا ہے موجودہ بحران کے سابق اور موجودہ حکمران ہی نہیں ہم، یعنی عوام بھی کچھ نہ کچھ ذمہ دار ہیں۔ عوام تو اپنے مسائل کا حل اپنے پیٹ کاٹ کر، ایک وقت کا کھانا کم کر کے سسک سسک کر زندگی کے عادی تھے، اب اس میں اضافہ ہو رہا ہے اور وہ کس حد تک مقابلہ کر سکتے ہیں اس کے بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں دی جا سکتی۔ البتہ موجودہ حکومت کے اکابرین بشمول وزیر اعظم میاں شہباز شریف اپنے تئیں بیانات کی حد تک تو کوشاں ہیں مگر عملی اقدامات کرنے کی بجائے روز بروز وطنِ عزیز کو بے توقیر کرنے میں مصروف ضرور ہیں۔ انہیں شاید اس حقیقت کا ادراک نہیں کہ پارلیمانی نظامِ حکومت ہمارے جیسے مقروض و مفلس ملک کے لئے قابلِ عمل نہیں اور اس نظام میں خاص طور پر مخلوط حکومت کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتی کیونکہ اقتدار میں وزارتوں میں مطلوب حصہ اور اس میں اضافہ اس بات کا ترقیاتی فنڈز کے نام پر ملکی خزانے پر بے جا بوجھ، مفادات کا ٹکرائو ہی نتیجے کے طور پر سامنے آتا ہے۔ آج کے نامساعد حالات میں کل کے اٹھائے گئے فیصلہ، معاونین خصوصی کا تقرر، اور آج روزنامہ نوائے وقت کے صفحۂ اول پر یہ خبر عوام کے لیے شائع ہوئی، 5 معاونین خصوصی کا اضافہ ، تاریخ کی سب سے بڑی وفاقی کابینہ کا نیا ریکارڈ قائم کل تعداد 83 ہو گئی۔ قیامِ پاکستان کے وقت جب آبادی کم و بیش نو کروڑ اور ملک دو حصوں میں منقسم تھا کابینہ کے ارکان بشمول وزیر اعظم نو یا دس تھے۔ حالانکہ وہ دور نہایت پُرآزمائش تھا۔ مہاجرین کے مسائل سے لیکر معیشت نہ ہونے کے برابر لیکن اس وقت قیادت، بشمول عوام اخلاص کے پیکر تھے لیکن ان دنوں ہم دن بدن قرضوں میں جکڑے ہوئے اور ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر اور عوام پر اس کے منفی اثرات زندگی کو جہنم واصل کرنے کی طرف گامزن ہیں۔ سوچنے کی بات اور عمل کی ضرورت ہے کہ آیا اتنی بڑی کابینہ ہمارے ملکی معاشی مسائل کی موجودگی میں اخراجات کی متحمل ہو سکتی ہے۔ دشمنانِ وطن تو جو ہمارے خلاف سوچی سمجھی سازش اور تباہی کی چالیں چلنا ہیں وہ اپنی جگہ طے شدہ امر ہے لیکن کم از کم ہمارے حکمرانوں کو تو عوامی مشکلات کے ازالہ کے لیے کفایت شعاری کا راستہ اپنانا چاہیے۔ جس نظام کے تحت ہماری ملکی سیاست، معیشت اور معاشرت بُری طرح ناکامی سے آشکار ہے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس بوسیدہ نظام سے جان چھڑائی جائے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کے نام نہاد فصلی مشیران نے پارلیمنٹ اور اس کی اہمیت کو بازیچۂ اطفال تو کیا، باغیچۂ مشکلات بنا دیا ہے۔ وہ دنیا بھر کی نظروں میں بے وقعت ہو چکا ہے۔ ہم آخر کب تک قرضوں پر انحصار کریں گے لہٰذا مسلم لیگ (ن) کے اکابرین اور ان کے وہ اتحادی جن کی بدولت حکومت قائم ہے مل جل کر اور اخلاص سے ملکی نظام کی حقیقی معنوں میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ ایڈہاک ازم سے عوام کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی بجائے مستقل معاشی بحالی کے لیے اقدامات کریں۔ 
 1953ء تک پاکستان کی معیشت اپنے پائوں پر کھڑی رہی اور ملک مقروض نہیں تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں قرض ملک کے نام پر لیے گئے لیکن اس کے اخراجات واضح نہ تھے۔ قرضوں کا حصول اپنی جگہ لیکن اس کا مصرف ہمیں لے ڈوبا۔ اراکین پارلیمانی، ان کے حلقوں میں ترقیاتی کاموں کا سلسلہ اور جاری فنڈز نے کرپشن کے دروازے کھولے۔ ملکی برآمدات میں اضافے کی بجائے درآمدات پر ضرورت سے زیادہ انحصار ، سامان تعیش کی درآمد ہمارے موجودہ اور سابق حکمرانوںنے کبھی بھی سادگی کو شعار نہ بنایا۔ اصراف نے ہمیں زمانے بھر میں رسوا کیا اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ آخر کب تک۔ 
دوسری جانکاہ خبر کہ نجکاری کے عمل کو تیز تر کرنے کی وزیر اعظم کی ہدایت ہونا تو یہ چاہیے کہ جن حکمرانوں کی وجہ سے ہمارے پیداواری یونٹس بدحالی کا شکار ہوئے ان حکمرانوں کو احتساب کے کشہرے میں کھڑا کیا جائے اور ان سے لوٹی ہوئی ملکی دولت طاقت کے زور پر واپس لی جائے۔ جس دورمیں جتنا قرضہ حکمرانوں نے لیا ان کا بلالحاظ اجتناب ہو۔ رورعایت نہ کی جائے۔ عوام کی بجائے تمام سیاسی خانوادے، جاگیردار، خاص طور پر صنعتی و تجارتی حکمرانوں کو اس ضمن میں اپنا اپنا حصہ ڈالنا چاہیے تاکہ ہمارا ملک حقیقی معنوں میں عوام کے لیے جنت نظیر بن جائے۔ علامہ اقبال کا ایک شعر بدل کر قارئین کی نظر 
سبب کچھ اور ہے جسے حکمران خوب سمجھتے ہیں 
زوال وطنِ عزیز کا معاشی کرپشن سے ہے 

ای پیپر دی نیشن