حضرت نفیر تابعی رحمة اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ اکتسابِ فیض کیلئے صحابی رسول حضرت مقدار بن اسود ؓکے پاس حاضر تھے ، اسی اثناءمیں ایک شخص کا وہاں سے گزرہوا، اس کی نظر حضرت مقدار کے چہرے پر پڑی تو اس نے کہا کتنی خوش بخت ہیں یہ دونوں آنکھیں جنہیں جناب رسالت مآب ﷺ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا، اللہ رب العزت کی قسم ہمیں تو یہ تمنا ہی رہی کہ جو کچھ آپ نے مشاہدہ کیا وہ ہم نے بھی دیکھا ہوتا اورجن مجلسوں میں آپ کو حاضری کی سعادت حاصل ہوئی ہم بھی ان مبارک مجلسوں میں حاضر ہوتے اورانکی برکتوں سے بہرہ مند ہوتے ، حضرت نفیر کہتے ہیں کہ اس شخص کی بات سن کر حضرت مقدار پر غصے کے آثا ر نمودار ہوئے ، مجھے اس بات پر تعجب کہ اس شخص نے تو محبت وعقیدت پر مبنی ایک اچھی بات ہی کہی ہے پھر صحابی رسول اس پر عضب ناک کیوں ہوگئے ہیں ؟ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ حضرت مقدار ؓاس شخص کی طرف متوجہ ہوئے اورارشاد فرمایا جس مجلس میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے تمہیں شریک نہیں ہونے دیا، تم اس مجلس میں شریک ہونے کی تمنا ہی کیوں کررہے ہو، تمہیں کیاخبر کہ اگر تم اس زمانے میں اوراس مجلس میں ہوتے تو تمہارا اس وقت کیا حال ہوتا ، اللہ ذوالجلال والاکرام کی قسم !بہت سے لوگوںنے حضور علیہ الصلوٰة والسلام کو دیکھا، لیکن انکی بدبختی اورشامت اعمال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انھیں منہ کے بل جہنم میں ڈال دیا، کیونکہ انھوںنے ہادی عالم ﷺکی دعوت کو قبول نہیں کیا، اورآپکی تصدیق نہیں کی، کیا تم اس نعمت پر اپنے پاک پروردگار کا شکر نہیں بجالاتے کہ اس نے تمہیں جس وقت پیدا کیا تو تم اپنے خالق ومالک کو پہچانتے تھے اورجو کچھ حضور اکرم ﷺلے کر تشریف لائے ہیں تم اسے سچا مانتے تھے اورکفروایمان کی جو آزمائش دوسرے لوگوں پر آئی تم اس سے بچ گئے ، قسم بخدا!حضور علیہ الصلوٰة والسلام کو ایسے زمانے میں بھیجا گیا جس میں کفر اورضلالت اتنے جوبن پر تھی کہ کسی اورنبی کے زمانے میں بھی اتنے زوروں پر نہ تھی ، مدت دراز سے انبیائے کرام کی آمد کا سلسلہ منقطع تھا اور جاہلیت کا ایسا دور دور ہ تھا کہ بتوں کی پرستش کو سب سے بہترین دین سمجھا جاتا تھا، آپ ایسی کتاب فرقان لیکر مبعوث ہوئے جس نے حق اورباطل میں امتیاز کردیا، (مسلمان)والد اور(کافر)بیٹے کے درمیان جدائی کردی ، چنانچہ جب ایک بندئہ مومن یہ دیکھتا ہے کہ اس کا والد یا فرزند یا بھائی کافر ہے لیکن اسکے دل کا قفل اللہ نے کھول کر ایمان سے بھردیا ہے اوراسے یقین ہے کہ اس کا یہ خاص تعلق دار جہنم رسید ہوگا ا ور اسے یہ بھی خبر ہے کہ جو جہنم میں گیا وہ برباد ہوگیا تو اپنوںکی ہمدردی میں اسے نہ چین آتا تھا اورنہ اسکی آنکھ ٹھنڈی ہوتی تھی جسے قرآن نے یوںبیان کیا ہے ”اے رب ہم کو اپنی عورتوں اوربچوں کی طرف سے آنکھوںکی ٹھنڈک عطافرما“۔(ابونعیم ، طبرانی الزوائد)